Monday, May 30, 2011

میں نے پاکستان دیکھا






ٹی وی پہ غلطی سے اگر پاکستانی چینل لگا دیں تو آواز آئے گی دھماکے اتنے لوگ جان بحق ٹرین پٹری سے اتر گئ ۔ بس کھائ میں گر گئ ۔ ٹارگٹ کیلنگ کا کتنے لوگ نشانہ بنے بھوک کی وجہ سے کس نے خود کشی کی مہنگائ کا حال رشوت اور بے ایمانی کا راج - خوبصورت چہرے جدید تراش خراش کے لباس میں ملبوس مسکراتے ھوئے چہرے مجال ھے کبھی ھنسی خوشی کی خبر سنائ ھے پہلے لوگ کہا کرتے تھے روتے چہرے روتی خبر لاتے ھیں مگر اب مسکراتے ھوئے چہرے بھی دل جلانے والی خبر سناتے ھیں

انھیں خبروں کے بیچ میں ایک اچھی یہ ملی کہ بھائ کی شادی طے پائ ھے منگنی چھ ماہ پہلے ھوگئ تھی امی ابو کے ساتھ چھٹ پٹ پاکستان کا پراگرام بنا - ایک دوست نے سنا تو اس نے کہا آج کل کے حالات میں پاکستان جانا کوئ عقلمندی کی بات نہیں اس نے ذھنی حالت پہ شک کیا
ایک اور دوست نے کانپتے ھوئے دعا دی خوشی کے موقعے پہ جا رھی ھو
خدا خیریت رکھے شاید  چشم ِ تصور میں ھمیں کسی دھماکے میں جام ِ شہادت نوش فرماتے دیکھ کر کانپی تھی


خیر انھیں سوچوں کے ساتھ ایسی کی خبروں کو سنتے ھوئے پاکستان کے ائر پورٹ پہ اترے ائر پورٹ پہ ھر انسان بے ایمان رشوت خور لگا میں ھر ایک کو ایسے دیکھ رھی تھی جیسے پولیس والے کسی غریب چور کو دیکھتے ھیں مگر خیر رھی ائر پورٹ سے نکلتے ھر گاڑی پہ را موساد بلیک واٹر ایجنسیوں کی گاڑی کا گمان ھرتا رھا ھر جیکٹ پہننے والے خود کش حملہ آور کا گمان ھوتا رھا سارے رستے ایسے چوکنے ھو کر بیٹھے رھے جیسے کسی نے حملہ کیا تو آنکھوں سے ھی بم کو ناکارہ بنا دیں گے
گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیا
اگلے دن شاپنگ کرنے نکلے تو ابو نے کہا جلدی آجانا حالات بہت خراب ھیں
ابھی گھر سےگئے ایک گھنٹہ ھی ھوا تھا ابو کی کال آگئ گھر کب آنا ھے حالات کا کوئ اعتبار نہیں اور یہ فقرے واپسی تک بار بار سننے کو ملے
پہلے دن ڈرتے ھوئے گزرا پھر شیر بن گئے کئ حادثات کے بعد بھی زندگی رواں دواں  ھے تین بار دھماکے کی ذرد میں آنے والی مون مارکیٹ بھی آباد  ھے لبرٹی چوک پہ رش اتنا تھا لگا نہیں یہ وہ پاکستان ھے جس کے لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے بچے بیچ رھے ھیں -
ایک ایسا ملک جس کی ایک بڑی آبادی کی تنخواہ چھ ھزار ھے اسی پاکستان میں ایک وقت کا کھانا چھ ھزار سے زیادہ کھاتے ھوئے دیکھا
ننگ ڈھرنگ لوگوں کے بیچ آٹھ دس ھزار کے ایک کرتا پہنے ھوئے لوگ بھی تھے مہنگائ سے پریشان لوگ بھی دیکھے اور شاپنگ سنٹرز کا نا ختم ھونے والا سلسلہ بھی دیکھا

پاکستان کے اور فوج کے خلاف نعرے لگانے والوں کے ساتھ واہگہ پہ پاکستان زندہ باد پاکستانی شیر جوان زندہ باد کے نعرے بھی سنے

ایک اور تبدیلی جو نوٹ کی وہ یہ تھی اب بھکاری کم نظر آئے آپ گاڑی سگنل پہ کھڑی ھے کھڑکی سے ایک دم مردانہ ٹائپ زنانہ ھاتھ سامنے آئے گا آپ کو شاد و آباد رکھنے کی دعا میں حیران ھو کر دیکھ رھی تھی یہ کیسے بھکاری ھیں مگر ایسے بھکاری آپ کو ھر جگہ نظر آئیں گے
ان میں بھی شاید ذاتیں  ھوتی ھیں عام ذات کے ھیجڑے چوک اور سگنلوں پہ نظر آئیں گے ان سے بڑی ذات کے ھیجڑے دفتروں اور بڑی بلڈنگز میں  نظر آئیں گے مرد کے بچے گرمی سردی میں محنت مزدوری کرتے خون پسینہ  بہاتے نظر آتے ھیں اور سب سے اعلیٰ ذات کے ھیجڑے تھری سوٹ پہنے ٹائ لگائے قافلوں کی شکل میں چارٹر طیاروں میں یورپ اور امریکہ میں بھیک مانگتے نظر آتے ھیں ایسا مجھے ھی محسوس ھوا ھے
یا آپ نے بھی ایسا دیکھا ھے ؟؟؟؟

Wednesday, May 18, 2011

ایک دفعہ کا ذکر ھے



ایک دفعہ کا زکر ھے ایک چھوٹی سی ریاست تھی جسے اللہ نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا تھا لوگ غریب اور محنت کش تھے روکھی سوکھی کھا کر خوش رھتے تھے جس حال میں بھی تھے اپنے حال مین مست تھے ریاست کا بادشاہ جو کہتا اس پہ آنکھیں بند کر یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے پھر خدا کا کرنا یہ ھوا بادشاہ فوت ھو گیا
اب مسلہ تھا ریاست کون چلائے گا پھر ان میں سے ایک طاقت ور آدمی اٹھا اس نے کہا وہ سب کی حفاظت کر سکتا ھے سب نے شکر کیا کوئ تو آیا ان کی حفاظت کرنے کے لیے — وہ جو کہتا وہ اپنی عادت کے مطابق یقین کر لیتے جو کہتا مان لیتے انھیں دو وقت کی روٹی مل رھی تھی دن ھفتوں میں بدلے ھفتے مہینوں میں اور پھر کئ سال گزر گئے پھر پتا چلا وہ محافظ سارا شاھی خزانہ لے کر بھاگ گیا ھے
مسلہ پھر کھڑا ھوا اب کون ریاست سمبھالے گا اب تک تو شاھی خاندان حکومت کرتا آیا ھے عوام اپنے آپ کو حکومت کے قابل نہیں سمجھتے تھے رعایا کو صرف دو وقت کی روٹی چاھیے ھوتی تھی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے پھر سب نے مل کر فیصلہ کیا جو بھی صبح سویرے ریاست کے دارلخلافہ میں داخل ھوگا اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا
سارے شہر کی آنکھیں شہر کے دروازے بھی لگی ھوئیں تھیں صبح دیکھا تو گدھوں کا غول شہر میں داخل ھو رھا ھے سب لوگ پریشان ھو گئے اب کیا کریں مگر وہ فیصلہ کر چکے تھے ابھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا
گدھے گھاس کھا کر اپنے حال میں مست رھتے وہ عوام کی زبان اور مسائل نہیں سمجھ سکتے تھے عوام ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے ریاست میں کافی گھاس تھی سب بندر بانٹ میں لگے رھتے کس کی کتنی گھاس ھے کون کتنی گھاس کھائے گا عوام کی روٹی کی کون فکر کرتے عوام کی حفاظت کون کرتا قانون کون بناتا کون حفاظت کرتا ریاست مین بد حالی پھیل رھی تھی عوام قانون خود بناتے تھے خود ھی فیصلہ کرتے تھے سر ِ عام سزائیں دی جانے لگی مگر حکمران اپنے حال میں مست تھے ایسے میں ریاست سے باھر کے گدھوں نے بھی ریاست میں‌دخل اندازی شروع کر دی
دوسری ریاست کے لوگ حیران تھے انھوں نے گدھوں کو اپنا حکمران کیوں بنایا ھوا ھے پھر ریاست میں الیکشن ھوئے رعایا نے پھر گدھوں کو منتخب کیا دو وقت کی روٹی کو زندگی کا مقصد سمجھنے والے عوام کچھ سمجھتے نہیں تھے
پھر ساری دنیا میں مشہور ھو گیا عوام بھی گدھے ھیں اگر گدھے نہ ھوتے تو گدھوں کو کیسے منتخب کرتے ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ جانا چاھئیے تھا گدھے گدھے ھیں انھیں ان کے مسائل کا کوئ ادراک نہیں وہ اپنے حکمران گدھوں سے دن رات دولتیاں کھاتے چیخ و پکار کرتے خود کشیاں کرتے اپنے بچوں کو مارتے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اللہ سے گلے کرتے اپنے مسائل کے لیے پھر ان کی طرف دیکھتے جواب میں دولتیاں کھاتے تھے پھر مگر اس قوم کو ساری دنیا نے گدھے مان لیا ان کے مسائل پہ کوئ غور نہیں کرتا تھا پھر ان کا کیا وھا اللہ جانے
ھو سکتا ھے جب اس ریاست کی گھاس ختم ھوگئ ھو تو گدھوں نے اس ریاست کو چھوڑ دیا ھو کیونکہ گدھوں کو گھاس سے مطلب ھو زمین سے محبت انھیں کہاں ھوتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سبق —– اس کہانی سے یہ سبق ملتا ھے گدھے کبھی انسان نہیں بنتے چاھے انھیں حکمران بنا دیا جائے
نمبر دو ۔۔۔۔ اگر انسان گدھے بن جائیں تو انھیں عقل دینا بہت مشکل ھوتا ھے انھیں پھر ھر جگہ سے دولتیاں ھی ملتی ھیں
نوٹ —— یہ صرف ایک کہانی ھے اگر حالات واقعات آپ کے اردگرد کے حالات سے ملتے ھوں تو یہ مماثلت اتفاقیہ ھوگی

اس میں برائ کیا ھے




گذشتہ دنوں اس موضوع پہ کافی لکھا گیا حجاج اکرام کو سہولیات نہیں دیں گئیں جو دینی چاھئیے حج جیسے مقدس فریضے میں بھی کرپشن کی گئ 
کسی نے مجھ سے  کہا کیا انھیں خدا کا خوف نہیں جو لوگ زکات صدقہ  
یتیموں کا حق تو کھاتے تھے اب حج جیسے  مقدس فریضہ میں بھی کرپشن کر رھے ھیں 

نجانے لوگ ھر بات کا منفی پہلو کیوں دیکھتے ھیں  کیا پتا ان کی نیت کیا تھی اللہ تو نیت کو دیکھتا ھے ھمیشہ اچھا سوچنا چاھئیے 

ھو سکتا ھے وہ دیکھنا چاہ رھے ھوں حق حلال کی خون پسینے کی کمائ کا ذائقہ کیسا ھوتا ھے 


ھو سکتا ھے انھوں نے یہ سوچا ھو اگر حجاج اکرام کو اچھی سہولیات دی گئیں آرام پہنچایا گیا تو وہ کہیں اللہ کے ذکر کو بھول کر سکون کی نیند سو جائیں 


تکلیف میں انسان اللہ کو زیادہ یاد کرتا ھے وہ چاھتے ھوں سب حجاج اکرام دنیا کی آسائشوں کو بھول کر اللہ کے زیادہ قریب ھو جائیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کو یاد کریں

 
پھر آج کل رشوت لینا اور دینا  کون سا گناہ ھے سب بہتی گنگا میں ھاتھ دھوتے ھیں اگر ان لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں سے چلو بھر پانی پی لیا تو کیا ھوا 


پیسوں کی برسات ھو رھی ھوتی ھے مگر کچھ لوگ شرافت کی چھتری تان کے بیٹھے ھوتے ھیں یہ کیا ھوا برسات ھو اور انسان سوکھے کا سوکھا رھے بارش کا کیا اعتبار آج ھو رھی ھے کل نہ ھو 


مجھے اسی لیے غریب لوگ اچھے نہیں  لگتے سوچتے بہت ھیں جو کام کر رھے ھیں غلط ھے یا ٹھیک ھے غلط کام کرتے ھوئے کوئ دیکھ نہ لے 
کہیں پکڑے نہ جائیں 

دنیا والے کیا کہیں گے 

دنیا والوں کو کیا منہ دیکھائیں گے 

نجانے کتنی سزا ملے 

اگر دنیا کی سزا سے بچ گئے تو اللہ کی سزا سے کیسے بچیں گے 


مجھے اپنے ملک کے نامی گرامی لگ اسی لیے اچھے لگتے ھیں ان کو دیکھ کر خوشی ھوتی ھے جو چاھتے ھیں  بن داس ھو کر کر ڈالتے ھیں اچھا برا کیا سوچنا ۔ جب اللہ دے تو بندہ کیوں نہ لے 
میں نے اپنی دوست " م " سے کہا کچھ لوگوں کو دیکھ کر لگتا ھے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ھے 

تو وہ کہنے لگی جب سر کڑاھی میں ھے تو بندہ باہر کیوں ھے ایسے لوگوں کو تو دیکھ کر دل کرتا ھے ان کے پورے وجود کو کڑاھی میں ڈال کر پکوڑے کی طرح  فرائ کر دوں 

میں نے اس سے کہا انسان کا گوشت حرام ھے اتنا بڑا پکوڑا کون کھائے گا وہ بھی حرام 

خیر حج بھی ھو گیا حجاج اکرام کی واپسی کا عمل بھی شروع ھو گیا حکومت کی شرمندگی کچھ لمحوں کی ھوتی ھے کیونکہ اگلے لمحے پھر کوئ ایسا واقعہ ھو جاتا ھے جس پہ زیادہ شرمندہ ھونا پڑتا ھے اب تو ڈھائ سال ھو گئے شرمندہ ھوتے ھوئے اب تو سب شرمندگی پروف ھو گئے ھیِں اب اور بھی کام ھیں جو کرنے ھیں اب کیا بندہ بس شرمندہ ھی ھوتا رھے 


ویسے بھی انسان ایک ھی کام کرتے کرتے بور ھو جاتا ھے پہلے بہت سے واقعات کی مذمت کی جاتی تھی اب وہ تکلف بھی چھوڑ دیا ھے ھر واقعے کے بعد لوگوں کو پتا ھوتا تھا بھی مذمتی بیان آئے گا اب ایک ھی بیان انسان کتنی بار دے کبھی لگتا تھا یہ پرانی ریکارڈنگ چل رھی ھے پھر تھری پیس سوٹ دیکھ کر ٹائ دیکھ کر اندازہ ھوتا تھا نہیں آج کا ھی بیان ھے 

دیکھتے ھیں اگلی بار کیا تبدیلی آتی ھے وزارت بدلی جائے گی یا   سہولیات میں بہتری آئے گی 
دیکھ لیں موضوع حجاج اکرام کی سہولیات سے شروع ھوا تھا گھوم کر وہیں پہ ختم ھو رھا پس ثابت ھوا دنیا گول ھے 

دربار ِ دل






کہتے ھیں اللہ دل میں بستا ھے ۔ ھم کبھی اپنے دل میں  نہیں جھانکتے جس دل میں اللہ بستا ھے وہ دل کیسا ھے 

کل میں اپنے دل کے دربار میں گئ سارا وقت وہیں گزارہ سارا وقت  وہاں گھومتی رھی اپنے دل کے گلی کوچوں میں جھانک کر بہت افسوس ھوا 

اللہ کے ساتھ ھزار بت ایستادہ تھے چھوٹے بڑے دیو قامت بت بہت سے بت دیکھنے میں بہت خوبصورت لگ رھے تھے میں سوچنے لگی - کیا اللہ کے ساتھ یہ بت رہ سکتے ھیں ؟؟ جہاں اللہ ھو وہاں بتوں کا کیا کام 

دن میں پانچ نمازیں -- ایک گھنٹا اللہ کے ساتھ 
باقی تیئس گھنٹے ان بتوں کے ساتھ - میں نے سوچا ان سب بتوں کو توڑ دوں مگر کیسے ۔۔  دن کے باقی تیئس گھنٹے ان بتوں کے ساتھ بسر ھوتے ھیں ۔ ان بتوں کو توڑ دیا تو دن کیسے گزرے گا مجھے ان بتوں سے نفرت ھے 
مگر ان سب کی عادت ھو چکی ھے ان سب کو کیسے توڑ دوں 


کبھی اپنے دل کی نگری سے گزر ھوا ھے آپ کا ۔۔۔
کہیں حسد کی آگ جل رھی ھے
 کہیں نفرتوں کی دیواریں ھیں 
کہیں خود غرضی
 تو کہیں خود پرستی ھے 
کہیں اپنی ذات برادری کا غرور 
کہیں اپنے عہدے اور مال و دولت کا مان 

اپنی تعلیم اپنی خوبصورتی کا احساس 

چھوٹے بڑے ھزار بت تکبر کے 
ان سب کے درمیان کہیں لکھا ھوا اللہ کا نام 


دل کے دربار کا شہنشاہ کون ھے 
دل کے مندر میں پوجا کس کو جاتا ھے 
دل کی نگری میں حکمرانی کس کی ھے 
کل میں اپنے دل کی نگری میں گھومتے ھوئے روتی  رھی آنسو بہاتی رھی 
مگر یہ بت کچی مٹی کے تو بنے ھوئے نہیں تھے جو چند انسوؤں سے بہہ جاتے ۔ وہ تو ویسے ھی تھے میرے دل کی نگری ان سے آباد تھی ۔ ان کو کیسے اٹھا کر باھر پھینک دوں - آگ لگا دوں - اپنے دل کی نگری کیسے خود برباد کر دوں -


کیا آپ نے کبھی اپنے دل میں بسے بتوں کو توڑا ھے ؟؟
یا آپ کے دل میں کوئ بت نہیں ھے ؟؟ 
ایک عام انسان کا دل مندر کی طرح ھوتا ھے بتوں سے بھرا ھوا ۔
ھر مسلمان کا دل مسجد نہیں ھوتا - 

مسجد میں تو سب برابر ھوتے ھیں وہاں دولت کی نمائش نہیں ھوتی 

ذات برادری کو نہیں دیکھا جاتا 

وہاں تو اللہ کے حضور نگاھیں جھکی ھوتی ھے صورت کو نہیں پرکھا جاتا 

وہاں نفرتوں کی باتیں نہیں ھوتی 

میں نے اپنے دل کے دربار میں جانے کے بعد جانا ۔ میرا دل ایک مندر ھے - وہ مسجد کب تھا - یا میں نے اسے سنوارنے کی کوشش  بھی کب کی تھی 

------------------------------------------------- 

لازوال سستی کا علاج




ھو سکلتا ھے آپ عنوان دیکھ کر سوچ رھے ھوں میں نے پیری فقیری کا کام شروع کر دیا ھے میں کوئ کوئ چلہ کاٹنے کا مشورہ دوں گی کوئ جادو ٹونہ جس کے اثر سے جیسا کہ  دعوے کیے جاتے ھیں پندرہ  دن میں محبوب آپ کے قدموں میں پتھر دل محبوب موم بن جائے ٹائپ کا کوئ ٹوٹکہ جس سے سستی دور ھو جائے گی تو ایسا با لکل نہیں 

اب شاید آپ سوچ رھے ھوں میں نے حکمت شروع کر دی ھے حکیم لقمان کا کوئ نسخہ میرے ھاتھ لگ گیا ھے تو یہ بھی نہیں 
یا کسی پیر بابا کی کرامت سے کوئ ایسا تعویذ مل گیا ھے جس کے باندھنے سے سست اور کاھل انسان سپر مین بن سکتا ھے تو یہ بھی غلط ھے 


کافی عرصے سے سستی طاری تھی بلاگ لکھنے کو بھی دل نہیں کر کررھا تھا دل کرتا تھا بس بیٹھے رھیں تصورِ جاناں لیے ھوئے ۔۔۔۔۔ مگر افسوس کوئ جاناں بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ عجیب سا عالم رھا کیا کچھ بھی نہیں بس فرصت ھی فرصت تھی مگر مصروف 
بہت رھے ۔۔۔۔۔ واقعی جس نے بھی کہا ھے ٹھیک کہا ھے جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ھیں 


کچھ لوگوں نے خاموشی سے سمجھا شاید ھم دنیا فانی سے کوچ کر گئے کسی نے سکون کا سانس لیا کچھ نے فاتحہ پڑھ دی کچھ نے حیرت کا اظہار کیا کہ دنیا سے اچھے لوگ جلد گزر جاتے ھیں ھم کس خوشی میں دنیا سے چلے گئے تصدیق کے لیے فون کیا ھم نے ھی اٹھایا تو انھوں نے خوشی سے کہا وہی تو میں حیران تھی اچھے لوگ دنیا سے جاتے ھیں مجھے یقین تھا تم خیریت سے ھو گی ۔۔۔۔۔ اب ایسے میں کوئ کیا کہہ سکتا ھے 


دنیا کے لوگ بھی عجیب ھیں کچھ دوست نما دشمن ھوتے ھیں کچھ دشمن نما دوست ھوتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔ خیر دنیا کے رنگ نرالے 
جتنے چہرے اتنے رنگ ۔۔۔۔۔ اور کچھ بد رنگ ۔۔ اور کچھ رنگ میں بھنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بات جہاں سے شروع ھوئ تھی وہ وہی پہ رک گئ سستی کا کیا علاج ھے ۔۔۔۔ وھم کا تو سنا تھا وھم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا ۔۔۔ مگر ھر حکیم ۔۔ حکیم لقمان نہیں ھوتا اس لیے وھم کا علاج بھی ممکن ھے یہ میرا وھم ھے ۔۔۔۔۔۔  مگر سستی کا علاج کس کے پاس ھے 
وہ بھی لازوال سستی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سستی کے ھاتھوں بہت تنگ ھیں اگر سست نہ ھوتے تو شاید کچھ ھوتے -------
میں ایک رائٹر کی بائیو گرافی پڑھ رھی تھی اتنی عمر نہیں جتنی کتب وہ تحریر کر چکے ھیں اگر پیدا ھوتے ھی کتاب لکھی ھو تو بھی عمر کے سال سے کتب کی تعداد  زیادہ بنتی ھیں 
نجانے کیسے لوگ ھیں کچھ لوگوں کو دیکھ کر سوچتی ھوں یہ ایک دن میں اتنے کام کیسے کر لیتے ھیں دن تو ان کا بھی چوبیس گھنٹے کا ھوتا ھے ۔۔ کھانا پینا ۔۔ ملنا ملانا ۔۔ سونا جاگنا ۔۔ فون ٹی وی کمپیوٹر ۔۔۔۔ ھزار کام ۔۔۔۔ لوگ کیسے تقسیم کرتے ھیں اپنے وقت کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کے لیے شاید وقت ٹھہر جاتا ھے  یا وہ وقت کی رفتار سے تیز بھاگتے ھیں ۔۔۔۔ کچھ لوگ وقت سے بہت پیچھے رہ جاتے ھیں اور وقت انھیں چھوڑ کر بہت آگے نکل  جاتا ھے ۔۔ اور پھر وقت کبھی ھاتھ نہیں آتا ۔۔۔۔۔

آج کے مومن






میں اکثر سوچتی تھی مومن کی پہنچان کیا ھوتی ھے - مسلمان تو بہت ھیں مگر مومن ھر ایک نہیں ھوتا 
اشفاق احمد کے پروگرام زاویہ میں سنا مسلمان اللہ کو مانتا ھے اور مومن اللہ کی مانتا ھے 


آج کل مجھے مومن بہت نظر آرھے ھیں پو جوش ناموسِ رسالت پہ مر مٹنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناموسِ رسالت کے لیے جان دینے والے اور جان لینے والے --------


ایک محترم ھیں چھ سال سے یہاں ھیں پاکستانی مسلمان ھیں یہاں تنہائ سے تنگ آکر ایک لڑکی کے ساتھ رہ رھے ھیں اپنے گھر والوں سے دور ھیں آخر دکھ سکھ کے لیے کوئ تو ھونا چاھیے اس لیے اگر ایک لڑکی کے ساتھ بنا شادی کے رہ رھے ھیں تو آخر کیا خرابی ھے ۔ آج  کل بہت جوش میں ھیں ان کا بس چلے تو آسیہ کو اپنے ھاتھوں سے مار آئیں ممتاز قادری کے ان ھاتھوں کو چومیں جن سے ایک گستاخِ رسول کو جہنم رسید کیا بہت جوش میں کہتے ھیں گستاخِ رسول کی یہی سزا ھے ۔ میں سوچ رھی ھوں گستاخِ رسول کی یہ سزا ھے تو کسی زانی کی اسلام میں کیا سزا ھے -------- یہ ایک فضول بات ھے میں ایسا کیوں سوچ رھی ھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک اور موصوف ھیں پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر سے کافی بڑی ایک عورت سے """ کاغذی شادی کر چکے ھیں جو ان کے ساتھ رھتی ھے ------ موصوف کے گھر والے اپنے بیٹے کی مجبوری کو جانتے ھیں‌ وہ جانتے ھیں ان کے بیٹے نے یہ قدم خوشی سے نہیں اٹھایا وہ بہت مجبور تھا ---- اس مجبور اقدام کے نتیجے میں ایک بچہ بھی ھو چکا ھے --- آج کل حالات کے بارے میں ان کا خیال ھے اگر سختی نہ کی گئ اقلیتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ ھمارے سامنے ھمارے مذھبی تعلیم کو ھمارے مذھب کو برا کہیں گے ان کو اتنی آزادی اتنی چھوٹ نہیں دی جا سکتی -------- کسی غیر مسلم کو چھوٹ اور آزادی نہیں دی جا سکتی ---- مگر ایک مسلمان کو آزادی ھے قیامت تک کی چھوٹ ھے وہ اپنے مذھب کی تعلیم کو بدنام کرے 



ایک ھیں ھمارے وزیر موصوف وہ اجلاس میں سورت اخلاص کی تلاوت کرتے ھیں کیونکہ اجلاس میں کوئ اور ان سے زیادہ پڑھا لکھا نہیں ھے اس لیے تلاوت کے لیے ان کا نام پکارا جاتا ھے پہلی بار تلاوت شروع کرتے ھیں غلط پڑھتے ھیں توجہ دلائ جاتی ھے دوبارہ پڑھتے ھیں پھر غلط پڑھتے ھیں تیسری بار غلط پڑھنے پہ صفائ پیش کرتے ھیں جو لکھا ھے وہی پڑھ رھا ھوں محترم کو زبانی سورت اخلاص یاد نہیں اور ان محترم کا نام بھی سامنے نہیں آیا جس مردِ مومن نے انھیں سورت لکھ کر دی تھی دو دن کے بعد ان کا بیان آتا ھے ------ گستاخِ رسول کو وہ گولی سے اڑا دیں گے ----------


مومن کی پہچان کیا ھے ؟؟؟؟؟؟؟
مومن وہ ھے جو اسلام کی تعلیم پہ عمل کرے یا نہ کرے وہ اس کا مسلہ ھے اگر کوئ اسلام کے بارے میں کچھ کہے اعتراض کرے اختلاف کرے تو مرنے مارنے کے لیے تیار ھو جائے ۔ ھم یہ بحث تو کر سکتے ھیں کوئ حدیث صحیح  ھے یا نہیں کس زمانہ میں اکھٹی کی گئ راوی کون ھے ۔۔۔
مگر توھین ِ رسالت کے قانون کے بارے میں ایک لفظ کہنے پہ بھی آپ کا ایمان مشکوک ھو سکتا ھے  ------------

Tuesday, May 17, 2011

یہ دنیا بڑی ٹھگ ھے


یہ دنیا بڑی ٹھگ ھے 


مبارک ھو آپ کی دو میلین کی لاٹری نکلی ھے ۔ 
مجھے نہیں چاھئیے 
اور نیند میں فون بند کر دیا 
پھر نیند میں یہ الفاظ دھرائے ۔ 
اور آنکھیں پوری کھل گئیں ۔ کیا دو میلین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر وقت گزر چکا تھا ۔ نیند کے سامنے تو کچھ بھی اچھا  نہیں لگتا 
سارا دن دماغ متضاد سوچوں‌کی آماجگاہ بنا رھا ۔ جب کوئ لاٹری بھری نہیں تو لاٹری نکلے گی کیسے 
پھر سوچتی رھی کیا پتا اللہ چھپڑ پھاڑ کر دینا چاہ رھا ھو ۔ 
مگر اللہ چھپڑ پھاڑ کر انھیں ھی دیتا ھے جن کے چھپڑ بہت مضبوط ھوتے ھیں غریبوں کو اس لیے بھی نہیں دیتا پتا ھوتا ھے چھت اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی 
اسی رات کو ٹی وی آن کیا ایک پروگرام لگا ھوا تھا ۔ ایک عورت کینڈل لائٹ ڈنر کا اھتمام کرتی ھے شوھر کام سے آتا ھے  
وہ پوچھتا ھے آج کیا کوئ سپیشل دن ھے نا تمہاری سالگرہ ھے نا میری نا ھماری شادی کی سالگرہ ھے 
ھم کھانا کھا لو پھر بتاتی ھوں 
کھانے کے بعد بیوی ایک خط دیکھاتی ھے جس میں مرد کے بتایا جاتا ھے اس کے چاچا جو اس کی والدہ کے کزن تھے انھوں نے اپنے خاندان سے تعلق توڑ دیا تھا اب مرنے کے قریب ھیں اپنی ساری جائداد ان کے نام کر دی ھے ایک فون نمبر دیا تھا جس پہ فون کر کے وہ مذید معلومات لے سکتے ھیں 
انھوں نے وھاں فون کیا تو ھدایت ملی تین ھزار یورو بھیج دیں کاغذٰ کاروائ اور رقم کی ٹرانسفر کے لیے اتنی رقم چاھئیے تین ھفتوں تک ڈھائ میلین یورو انھیں مل جائیں گے 
ڈھائ ھفتے سے ڈھائ ماہ گزر گئے مگر ان کا کوئ پتا نہیں چلا 
ایسے بہت سے واقعات یہاں کچھ عرصہ پہلے ھوئے تھے 

ایک دن فون آیا مبارک ھو آپ کی کار انشورنس کی فرم نے قرااندازی کی ھے جس میں آپ کی کار کا نمبر  نکلا ھے آپ ڈیڑھ ھزار یورو کا پٹرول بھر سکتی ھیں مذید معلومات کے لیے اس نمبر پہ فون کریں 
میں نیند میں تھی نمبر نوٹ نہیں کیا 
یہ بھی فراڈ ھے لوگ نمبر پہ فون کرتے ھیں پانچ منٹ انتظار کروائیں گے پھر مختلف سوالات پوچھیں گے کوشش کریں ھے زیادہ دیر بات ھو سکے - بیس یورو فیکس فون کالز کے ھوتے ھیں ملک بھر میں جتنی چاھو بات کرو ۔ اس نمبر پہ ایک منٹ کے دو یورو ھیں جو ان کے اکاؤئنٹ میں جاتے ھیں بہت  سے لوگوں کو چالیس سے ساٹھ یورو تک کا بل آیا اس نمبر پہ کال کرنے سے ------
انٹر نیٹ سبھی استعمال کرتے ھیں ڈاؤن لوڈ بھی کرتے ھیں بچے گیمز اور اکثریت گانے اور فلمیں - بہت سے لوگوں کو خط آئے 
جس میں کہا گیا تھا انھوں نے غیر قانونی ڈاؤن لوڈ کیا ھے اس لیے انھیں چھ سو یورو جرمانہ کیا جا رھا ھے اگر 30 دن کے اندر انھوں نے یہ رقم جمع نہ کروائ تو کیس عدالت میں جائے گا 
وکیل اور عدالت کے خرچے کا ساتھ ساتھ چھ ھزار یورو جرمانہ ھوگا ۔ مذید تحقیق کی جائے گی اگر کچھ اور بھی ڈاؤن لوڈ کیا ھوگا اس کا جرمانہ الگ ھوگا 
لوگ عدالت اور کیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاھتے - دل میں چور ھوتا ھے اس لیے چھ سو دے کر جان چھڑالیتے ھیں -
جب اس طرح کے خط ان اڈھیر عمر لوگوں کو بھی آئے جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ۔ اگر کرتے بھی ھیں تو صرف اخبار پڑھنے کے لیے تب یہ کیس میڈیا کے سامنے آیا ۔ یہ بھی فراڈ ھے ۔
پہلے چوریاں  ھوتی تھیں ۔ اب لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد ھو رھے ھیں - نئے نئے واقعات سامنے آتے ھیں ۔ ھر بار طریقہ نیا ھوتا ھے ۔ کیا کیا جائے یہ دنیا بڑی ٹھگ ھے 

منظر نامہ پہ ایک انٹرویو


منظر نامہ کے قارئین کو خوش آمدید۔
سلسلہ شناسائی میں آج ہم ایک بلاگر مہمان کے ساتھ حاضر ہیں۔ آپ اردو بلاگنگ میں بہت پرانی بھی نہیں اور بہت نئی بھی نہیں۔ باقاعدہ اردو بلاگنگ کے آغاز سے پہلے آپ القمر پر بھی لکھا کرتی تھیں۔ دسمبر 2008 سے آپ نے اردو بلاگنگ کا آغاز کیا۔ اور ماشااللہ باقاعدگی سے بہترین لکھ رہی ہیں۔ سعدیہ جو سوچتی ہیں، جو محسوس کرتی ہیں، وہ اپنے بلاگ پر لکھتی ہیں اور ہم سب کے ساتھ شئیر کرتی ہیں۔ آج ہم ان سے اردو بلاگنگ اور کچھ ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے. تو آئیے ۔۔سعدیہ سحر سے بات چیت کا آغاز کرتے ہیں۔
خوش آمدید سعدیہ،
شکریہ ماوراء
- سعدیہ، سب سے پہلے ہم آپ کے بارے کچھ جاننا چاہیں گے۔ آپ کا خاندانی پس منظر، تعلیم، پیشہ یا آپ کیا کرتی ہیں؟
@ میرا تعلق زمیندار فیملی سے ھے ابو وکیل ہیں امی نے ٹیچنگ کا کورس کیا ہے مگر جاب نہیں کی ۔۔۔ بچپن سے میری خواہش تھی میں وکیل بنوں مگر ابو کا خیال تھا لڑکیوں کے لیے وکالت ایک مشکل پیشہ ھے اگر جاب کرنی پڑے تو بنک کی جاب بہتر ھے اس لیے میں نے اکنامکس پڑھی اور جب لکھنا شروع کیا تو ہر تِحریر میں حساب کتاب پرسنٹ ایج بہت ہوتا تھا لوگوں کے کہنے پہ چھوڑ دیا
- آپ کی جائے پیدائش اور حالیہ مقام کون سا ہے؟
@ میں لاہور میں پیدا ہوئی پلی بڑھی آج کل جرمنی میں ہوتی ہوں.
- بلاگ کب لکھنا شروع کیا اور بلاگ بناتے ہوئے آپ نے کیا سوچا تھا کہ آپ کو بلاگنگ کیوں کرنی چاہیے یا بلاگ کے آغاز کا بنیادی مقصد کیا تھا؟
@ بلاگ پچھلے سال دسمبر میں بنایا تھا مگر باقاعدہ لکھنے کا آغاز جنوری سے کیا – بلاگ اپنے دل کی بات بلکہ دل کی بھڑاس نکالنے کا بہترین زریعہ ھے اور کوئی خاص مقصد نہیں تھا.
- اس بلاگ سے پہلے آپ القمر پر بھی بلاگنگ کیا کرتی تھیں۔ وہ تجربہ کیسا رہا ، کچھ اس بارے میں بتائیں؟
@القمر پر لکھنے کا تجربہ ٹھیک رہا تعریف بھی بہت ہوئی تنقید بھی ہوئی.
- لکھنے کا شوق کب سے ہے؟
@بچپن کہانیاں لکھنے کا شوق تھا لکھ کر اپنی بہن یا اپنی دوستوں کو سنا دیتی تھی کبھی کسی رسالے میں نہیں بھیجی پہلی بار ساتویں کلاس میں اخبارِ جہاں ایک تحریر بھیجی جو اس ماہ کی بہترین تحریر قرار پائی اس کے بعد ڈائری باقاعدگی سے لکھتی رہی، کبھی کبھی بچوں کے رسالوں میں بھیجتی تھی کچھ کہانیاں لکھی ہیں ایک کہانی “کھلے آسمان تلے” جس کی تیرہ اقساط تھی ایک میگزین میں چھپی سیاست پہ دل غصے سے پھٹنے لگتا ہے تو لکھتی ہوں.
- آپ بلاگ پر کن کن موضوعات پر لکھتی ہیں ؟
@ کوئ مخصوص موضوع نہیں جو بات دل پہ لگ جائے اسی پہ لکھتی ہوں.
- یہ بتائیے کہ بلاگنگ کے بارے میں پہلی بار آپ کو کب اور کیسے پتا چلا تھا؟
@پاک نیٹ پہ لوگوں نے بلاگ اور ورڈ پریس کے بارے میں کافی کچھ لکھا وہی سے دیکھ کر بلاگ بنایا.
- بلاگنگ کے آغاز میں کن کن مشکلات کا سامنا رہا؟
@کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی بلاگ بنانے لگی تو حیرت انگیز طور پر فوراً بن گیا اس کی سیٹنگ کی سمجھ نہیں آرہی تھی ایک دن سیٹنگ کرتے کرتے اردو کی بورڈ غائب ہو گیا کافی مشکل سے وہ ٹھیک ہوا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کبھی بلاگ چھیڑا ہی نہیں.
- کیا آپ سمجھتی ہیں کہ بلاگنگ سے آپ کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ یا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟
@ فائدے سےکیا مراد ہے ؟؟؟ عزت دولت شہرت ؟؟؟؟ لکھنے سے دل کو سکون ملتا ھے اسی لیے لکھتی ہوں – اور لکھنے سے جو دل کو سکون ملتا ھے ہر لکھنے والا جانتا ہے.
- اگر آپ کو اردو کے ساتھ تعلق بیان کرنے کو کہا جائے ، تو اس کو کیسے بیان کریں گی۔
@ اردو ہماری مادری زبان ھے اور اردو سے ہمارا وہی تعلق ھے جو ایک ماں کے ساتھ ہوتا ھے اس پہ ایک بلاگ لکھا تھا — میں بولتی سوچتی سمجھتی غصہ پیار محبت اردو میں ہی کرتی ہوں بلکہ سپنے بھی اردو میں ہی دیکھتی ہوں.
- آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اردو کو وہ مقام ملا ہے، جس کی وہ مستحق تھی؟
@ کیا پاکستان میں اردو کو کوئی مقام بھی حاصل ہے ؟؟؟؟ میرے علم میں یہ نہیں ہے.
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ھے جب سے پاکستان بنا ہے اردو کے ساتھ ستیلے بچے کا سا سلوک ہوتا آرہا ہے. دفتری کام انگلش میں ہوتے ہیں ہمارے صدر وزیرِ اعظم اپنی قومی زبان پہ غلط انگلش کو ترجیح دیتے ہیں انگلش میں خطاب کرتے ہیں ہمارا بجٹ حلف برداری کی تقریب انگلش میں ہوتی ہے وہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ستر فیصد سے زائد لوگ انگلش نہیں سمجھتے پاکستان میں انگلش کو ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ھے یہی وجہ ہے کہ ایک عام انسان بھی اگر اسے ایک اچھا اردو اسکول میسر ہو اس کی نسبت وہ ایک عام درجے کے انگلش اسکول میں دوگنی فیسوں کے ساتھ اپنے بچوں کو پڑھانا زیادہ پسند کرتا ہے اردو کو ایک رابطہ زبان بنانے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی اندونِ سندھ بلوچستان اور سرحد میں بہت سےلوگ اردو نہیں سمجھتے جب زبان ایک نہیں اپنے مسائل ایک زبان میں بیان نہیں کر سکتے تو دلوں کے فاصلے کیسے کم ہوں گے جب بھی اس بارے میں سوچوبہت دکھ ہوتا ہے.
- آنے والے دس سالوں میں اپنے آپ کو اور اردو بلاگنگ کو کہاں دیکھتی ہیں؟
@ آنے والے دس منٹوں کا کچھ نہیں کہہ سکتے ہاں جہاں تک بلاگنگ کی بات ھے جتنی تیزی سے انٹر نیٹ عام ہورہا ہے صرف ایک کلک سے دنیا بھر کی خبریں آپ کے سامنے ہوتی ہیں اور ایک عام انسان کا نقطہ نظر سمجھنےکے لیے بلاگنگ بہترین زریعہ ہے اردو بلاگرز کی اکثریت عام لوگوں پہ مشتمل ھے پروفیشنل لوگ نہیں ہیں عام لوگ جن کے وسائل اور مسائل عام ہیں جو عام لوگوں میں رہتے ہیں جینے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں غلط اور صحیح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں یورپ میں بلاگرز کا جو مقام ہے وہ اردو لکھنے والوں کو حاصل نہیں مگر آنے والے وقت میں مثبت تبدیلی آئے گی.
- بلاگنگ کے علاوہ دیگر کیا مصروفیات ہیں؟
@کچھ اور نہیں کرتی جاب کی تلاش میں ہوں معذور بچوں کا ایک اسکول ہمارے قریب کھلا ہے مگر وہاں جگہ نہیں ملی میں زندگی کے اس رنگ کو دیکھنا چاہتی ہوں.
- کسی بھی سطح پر اردو کی خدمت انجام دینے والوں اور اردو بلاگرز کے لیے کوئی پیغام؟
@میرے خیال میں آج کل انٹرنیٹ کے دور میں سب سے بڑی اردو کی خدمت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے اردو کا کی بورڈ شروع کیا یونی کوڈ میں اور لکھنے کا سلسلہ شروع کیا رومن اردو لکھتے لکھتے لوگ اردو کو بھولنے لگے تھے اور وہ لوگ نایاب کتابوں کو منظرِ عام پہ لا رہے ہیں اور وہ استاد جو خلوص دل سے سہولتیں نا ہونے کے باوجود بچوں کو پڑھا رہے ہیں قابلِ ستائش ہیں بلاگرز سے یہی کہنا ہے یہ نا دیکھیں کتنے لوگ پڑھتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں اپنے ضمیر کی آواز سنیں ضرور لکھیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں.
- آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے ،کوئی ایسی خواہش جس کی تکمیل چاہتی ہوں؟
@ ابھی زندگی کو سمجھ رہی ہوں مقصد نہیں جانتی کیا ہے خواہش نہیں کئی خواہشات ہیں.
کچھ سوال ذرا ہٹ کے۔۔۔
پسندیدہ:
1۔ آپ کی پسندیدہ کتاب؟ یا کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں ؟
@ بچپن میں ٹارزن کے کارنامے عمروعیار کی چالاکیاں اشفاق احمد کی کہانیاں پڑھتے ھوئے گزرا ڈائجسٹوں نے متاثر نہیں کیا ابو کو ابن انشاء پسند تھا ان کی کتابیں پڑھیں کرنل محمد خان شفق الرحمن صدیق سالک یوسفی کو پڑھا اور یونس بٹ کی کتابیں پچھلے دو تین سال میں پڑھیں ایک بار ایک دوست کے گھر ایک ڈائجسٹ کی ورق گردانی کرتے ھوئے عمیرہ احمد کا ناول پیر کامل پڑھنے کا اتفاق ھوا اس ناول نے ہر ماہ ڈائجسٹ خریدنے پہ مجبور کیا مجھے پیار محبت کی انڈین مویز ٹائپ کی کہانیاں پسند نہیں میں خاموش محبت کی قائل ھوں جس میں اظہار نہیں ہوتا انسان دوسرے کے ہر احساس کا خیال رکھتا ھے یہ بات فرحت اشتیاق کا ناولز میں نظر آئی عمیرہ احمد اور فرحت اشتیاق میری فیوریٹ ہیں.
2۔کیا آپ کوشعر و شاعری سے لگاؤ ہے؟ اگر ہے، تو آپ کے پسندیدہ شاعر اور پسندیدہ شعر کون سا ہے؟
@شاعری اپنے جذبات کے اظہار بہترین صورت ہے چند الفاظ میں اپنے دل کی بات کہنا ۔۔۔ میں نےغالب کو پڑھا کافی مشکل ہے فیض کی شاعری اچھی لگی اس کے علاوہ اعتبار ساجد محسن نقوی پروین شاکر کو پڑھا آزاد شاعری میں امجد اسلام امجد ان کی کئ نظموں کو پڑھ کر لگتا ھے الفاظ بہتے ہیں احمد فراز میرے فیوریٹ ہیں ان کی شاعری میں جو تمثیلیں ہیں وہ زبردست ہیں ان کا ایک شعر پڑھا تھا پھر ایک بار پڑھا بار بار پڑھا اور ہمیشہ سے پسندیدہ ہے.
ہم تو محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا
3۔ کہتے ہیں کہ رنگوں کے انتخاب سے کسی حد تک انسان کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، تو ہم آپ کے پسندیدہ رنگ کے بارے میں بھی جاننا چاہیں گے؟
@مجھے سفید اور آسمانی رنگ پسند ہے اس کے علاوہ ریڈ اور گرین ۔۔۔۔۔۔ اب شخصیت کا اندازہ لگا کر مجھے بھی بتائیں.
4۔ کونسا کھانا آپ بہت شوق سے کھاتی ہیں؟
@مجھے اپنی امی کے ہاتھ کی بنی ہوئی کڑھی بہت پسند ہے اس کے علاوہ بریانی بلکہ چاول سے بنی کوئی بھی ڈش چکن تکہ سیخ کباب پوری لسٹ آرہی ہے ذہن میں ساتھ منہ میں پانی بھی.
5۔ آپ کا پسندیدہ موسم کون سا ہے؟
مجھے ہر موسم اچھا لگتا ھے بہار خزاں سردی گرمی اور گرمی کی بارش خاص طور پہ جب ٹیریس کی چھت پہ بارش پر بارش برستی ہے اور شیشے پہ گرنے سے جو چھم چھم کی آواز اتی ہے وہ بہت اچھی لگتی ھے آدھی رات کہ بھی جب بارش ہوتی ہے میں ٹیریس پہ جا کر بیٹھ جاتی ہوں.
غلط/درست:
1۔ مجھے بلاگنگ کی عادت ہو گئی ہے؟
@جی کافی حد تک
2۔ مجھے اکثر اپنے کئے ہوئے پر افسوس ہوتا ہے؟
@اگر کوئی غلطی ہو جائے تو افسوس ہوتا ہے.
3۔ مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے؟
@درست
4۔ میں ایک اچھی دوست ہوں؟
@اگر کسی کو اپنا دوست مان لوں پھر ہر چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھتی ہوں
5۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے؟
طوفانی
اگر آپ سمجھتی ہیں کہ ہمیں کچھ پوچھنا چاہیے تھا، لیکن ہم نے پوچھا نہیں اور آپ کچھ کہنا چاہتی ہوں تو آپ کہہ سکتی ہیں۔
@آپ نے سب کچھ پوچھ لیا میں نےبھی سب کچھ بتا دیا کسی نے کچھ اور پوچھنا ھو تو پوچھ سکتا ہے.
سعدیہ، اپنا قیمتی وقت نکال کر منظر نامہ کے لیے جواب دینے کا بہت بہت شکریہ۔
شکریہ مارواء میں نےبہت سے لوگوں سے انٹر ویو لینے کا سوچا تھا مگر کبھی انٹرویو دینے کا نہیں سوچا تھا.انٹرویو دیتے ہوئے میرے چہرے پہ ویسی ہی مسکراہٹ تھی جیسی زرداری کے چہرے پہ ہوتی ہے.کوشش کی ہے جیسے سوچتی ہوں یا جیسی ہوں ویسے ہی جواب دوں-
منظر نامہ کی ٹیم کا شکریہ اور سب پڑھنے والوں کا بھی.