Saturday, June 11, 2011

ھائے رے یہ خوش فہمیاں ---------------






ھم کتنے خوش فہم قوم ھیں ۔ ھماری خوش گمانیاں ختم کیوں‌نہیں ھوتیں ھم خود ختم ھو جاتے ھیں -
ایک پارٹی انتخابات جتتی ھے دور ِ حکومت میں بے ایمانی کرتی ھے دورِ حکومت ختم ھونے پہ دیار ِ غیر میں بنائے ھوئے محلوں میں چلے جاتے ھیں
کچھ عرصے کے بعد واپس آتے ھیں ھم بھول جاتے ھیں یا اپنی خوش فہمی کے ھاتھوں مار کھا جاتے ھیں کہ وطن سے دور رہ کر سدھر گئے ھوں گے وطن کی محبت جاگ گئ ھو گی اب جو وعدے کر رھے ھیں وہ پورے کریں گے مگر ھماری خوش فہمیاں خوش فہمیاں ھی رھتی ھیں


ایک انسان پہ مسٹر ٹن پرسینٹ کا لیبل لگتا ھے کئ الزامات لگائے جاتے ھیں ھم پھر اسے پھر اپنا حکمران مان لیتے ھیں دیارغیر میں ھم سے پوچھا جاتا ھے کیا پاکستان کی قیادت کرنے کے لیے اس سے بڑا انسان اور با کردار انسان پورے پاکستان میں نہیں تھا کیا جواب دیں اٹھارہ کڑوڑ لوگوں نے اپنا  مسیحا کیوں چنا وہی خوش گمانیاں شاید زندگی کے حوادث نے اور جیل کی چھترول نے بندے کا پتر بنا دیا ھو لوگ تو یہی کہتے ھیں حوالات میں بڑے بڑے سیدھے ھو جاتے ھیں مگر وی آئ پی سیلوں میں جہاں دنیا نعمتیں میسر ھوں وہاں بڑے بڑے لوگ ایشوریا کے ڈانس اور لتا کے گانے سن کر غم غلط کرتے ھیں وہ کیسے سدھر سکتے ھیں یہ کلیہ عام انسان پہ پورا اترتا ھے جیسے الٹا لٹکایا جاتا ھے اور ایسی مار ماری جاتی ھے کہ برسوں اس مار کا مزا نہیں بھولتا


ھر بجٹ سے پہلے وعدوں پہ اعتبار کرتے ھوئے گمان کرتے ھیں شاید اس بار عوام کو ریلیف ملے گا مگر وہ حکومت ھی کیا جو عوام کے جذبات کو ان کے مسائل کو سمجھے عوام کو ریلیف دے ۔۔۔۔ ریلیف نہیں ملتا صرف تکلیف ملتی ھے


گوجرہ کا واقعہ ھو یا سیالکوٹ کا ھم سمجھنے لگتے ھیں اب تو یہ واقعہ میڈیا کے سامنے آگیا سب حقیقت عوام سے سامنے کھل چکی ھے اب مجرم بھاگ نہیں سکے گا مگر وہ مجرم ھی کیا جو پاکستان میں سزا پا جائے سزا کے حق دار عوام ھیں چاہے ڈرون حملے ھوں یا خوش کش حملے بے موت مرنا عوام کے نصیب میں لکھی ھوتی ھے ھر واقعے کے بعد وی آئ پی لوگوں کی سیکورٹی بڑھا دی جاتی ھے حقیقی ملکی سرمایہ تو وہی ھیں عوام تو ایسا بکرا ھیں جسے قربان ھونا پڑتا ھے


خروٹ آباد کے واقعہ سامنے آیا کیا ھوا مجرم کہاں ھیں ۔ کیسے خبر --------وہ کہاں گئے کیا سزا ملی ملک میں ھیں یا فرار ھو گئے
مجرم تو مہران بیس سے بھی اپنی کاروائ کر کہ فرار ھو گئے تھے دھشت گرد بارود سے بھری گاڑی میں بارود بھر کر شہر میں آتا ھے اور کاروائ کرتا ھے اسے کچھ نہیں ھوتا ان کی رکھوالی کون کرتا ھے  اور بے بس عوام خیریت سے گھر نہیں پہنچتے ان کی لاشیں جاتیں ھیں - کبھی ملک دشمن عناصر کا نام سامنے آتا ھے کبھی دھشت گرد تنظیموں کا کبھی ڈرون حملے کا اور اپنے ملک کے رکھوالوں کا جو ملک کو لوٹنے والوں کو سلامی دے کر رخصت کرتے ھیں اور بے بس لوگوں پہ الزام لگا کر سرِ عام سزا بھی دے دیتے ھیں نہ عدالت نا صفائ کا کوئ موقعہ خود ھی گواہ خود ھی منصف ۔۔۔۔۔



کچھ فورم پہ لوگوں کو انصاف کی امید ھے نجانے یہ خوش فہمیاں جان کیوں نہیں چھوڑتیں ھم کیوں نہیں مان لیتے مرنا قسمت میں خود کش حملوں میں نہیں تو ڈرون حملے میں یا مہنگائ مار دے گی ۔ مگر ھم ھر بار خوش ھو جاتے ھیں چیف جسٹس صاحب نے از خود نوٹس لے لیا ھے کیا یہ کم ھے ھر بار ھم انصاف انصاف کا نعرہ لگاتے ھیں اس آس پہ شاید ھماری آوازیں ایوان کی دیاروں تک پہنچ جائیں مگر افسوس اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریوں کی آوازیں دیواروں سے ٹکراتی رھتی ھیں اثر نہیں دیکھاتیں
مجھے کوئ امید نہیں کہ انصاف ملے گا اب سب خوش فہمیاں دور ھو چکی ھیں آپ کس بات کی خوش فہمی ھے کس پہ اعتبار ھے ؟؟؟
پولیس پہ ؟؟؟؟
فوج پہ ؟؟؟
حکمرانوں پہ ؟؟؟
اپوزیشن پہ ؟؟
ایجینسیوں پہ ؟؟؟
دیارِ غیر میں بیٹھے محب ِ وطن جلا وطن سیاست دانوں پہ ؟؟

Monday, June 6, 2011

کیا مسلم عورت کمزور ھوتی ھے ؟





مغربی ممالک مسلم خواتین کے بارے میں خیال کیا جاتا ھے مسلم عورت پردے میں لپٹی ھوئ ڈری سہمی جس کی اپنی کوئ مرضی نہیں اپنی کوئ سوچ نہیں ھوتی جو شادی سے پہلے باپ اور بھائ کی مرضی سے زندگی بسر کرتی ھے شادی کے بعد شوھر کے اشاروں پہ چلتی ھے مسلم عورت جس کی اپنی کوئ زندگی نہیں ھوتی ھے
کیا مسلم عورت حقیقت میں کمزور ھوتی ھے ؟؟؟
جو عورت اپنی اقدار اپنی مذھبی قدروں کے سینے سے لگا کر رکھتی ھے
جو عورت بے حیائ کے ماحول میں اپنی شرم و حیا کو بچا کر رکھتی ھے
جو عورت زمانے کے رنگ میں نہیں رنگتی
جو عورت مادر پدر آزاد ماحول میں لوگوں کی باتوں سے بے پرواہ اپنے لباس اور پردے کا خیال رکھتی ھے
جو عورت اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھتی ھے
اپنی خواھشوں‌کو بے لگام نہیں ھونے دیتی
کیا وہ عورت کمزور ھو سکتی ھے ؟؟؟
کمزور ھوتی ھیں وہ عورتیں جو مشرق سے آتی ھیں لوگوں‌کی باتوں سے خوف ذدہ مغرب کے رنگ میں رنگ جاتی ھیں ان میں لوگوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ اور ھمت نہیں ھوتی
مگر مسلم عورت کبھی کمزور نہیں ھوتی جس کا ایمان مضبوط ھو اللہ پہ یقین ھو وہ عورت کبھی کمزور نہیں ھو سکتی

محبت اور زندگی







نوجوانوں کی پارٹی تھی جس کا موضوع بحث چل رھا تھا اے لیول کی پارٹی کیسے منائ جائے سب اپنی آئندہ زندگی کا پلان بنا رھے تھے وہ خاموشی سے بیٹھا سب کی باتیں سن رھا تھا اتنے میں اس کی گرل فرینڈ کیٹھرینہ ایک لڑکے کے ساتھ آئ وہ اسے چھوڑ چکی تھی بات کوئ خاص نہیں ھوئ تھی اور تین سال کا ساتھ چھوٹ گیا
سب دوست انکھوں ھی آنکھوں میں ایک دوسرے کے اشارے کر رھے تھے کچھ دوستی ختم ھونے کی وجہ جاننا  چاہ رھے تھے کیٹھرینہ اپنے دوست کے ساتھ جلد چلی گئ جانے کے بعد سب اب اس کا مذاق اڑا رھے تھے  اس لڑکے کی تعریف کر رھے اسے چھیڑ رھے تھے اسے سب اچھا نہیں لگ رھا تھا وہ چپ کر کے گھر آگیا
گھر آکر بھی کچھ اچھا نہیں لگ رھا تھا ماما پاپا دونوں سو رھے تھے وہ کسی سے بات کرنا چاہ رھا تھا آن لائن ھوا فیس بک پہ کافی دوست آن لائن تھے سب اسے چھیڑ رھے تھے مذاق بنا رھے تھے سب کے لیے دل لگی تھی مگر ھر بات اسے دل پہ لگ رھی تھی
 میری زندگی کا کیا مقصد ھے میری زندگی میں اب کچھ نہیں یہ اس کے آخری الفاظ تھے جو اس نے اپنے فیس بک اسٹیٹس پہ تحریر کیے
وہ گھر سے باھر آیا آوارہ گھومتا رھا گھومتے گھومتے ریلوے لائن تک آیا سامنے سے تیز رفتار ٹرین آرھی تھی وہ سامنے آگیا کچھ سیکینڈ کے بعد وہاں اس کے جسم کے درجنوں ٹکڑے بکھرے ھوئے تھے ھر طرف خون تھا


یہ سچا واقعہ ھے جو ھفتے کے روز یہاں پیش آیا
زندگی کیا ھے اس کا مقصد کیا ھے میں یہی سوچ رھی ھوں
کیا کسی ایک کی محبت ھی سب کچھ ھوتی ھے
کیا ماں باپ کا زندگی میں کردار صرف اتنا ھوتا ھے کہ وہ پال پوس کر بڑا کر دیں

ان کے کوئ ارمان نہیں ھوتے کوئ خواب نہیں ھوتے
پاکستان میں بھوک بیماری ھر موڑ پر کئ امتحان ھوتے ھیں انسان بہت کچھ کرنا چاھتا ھے وہ بہت کچھ کر بھی سکتا ھے مگر وہ بے بس ھوتا ھے آخر مایوسی کی حد یں ختم ھو تی ھیں اور وہ خود کشی کر لیتا ھے

یورپ میں محلوں میں رھنے والے دنیا کی ھر آسائش پانے والے جنھیں آنکھیں کھولتے دنیا کی ھر آسائیش میسر ھوتی ھے مگر انھیں زندگی میں دلچسپی نہیں ھوتی یہ پہلے واقعہ نہیں اس سال میں یہ تیسرا واقعہ
ھے جو ھمارے جاننے والوں میں ھمارے علاقے میں ھوا ھے زرا سی بات پہ دلبرداشتہ ھو کر زندگی کا خاتمہ کرلینے کا

Wednesday, June 1, 2011

فراغ دلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






پریس کانفرنس ھو رھی  تھی مختلف سوالات کیے جا رھے تھے اتنے میں ایک صحافی نے محترم صدر صاحب سے سوال کیا اللہ نے آپ کو اتنا نوازا ھے
اتنا کچھ دیا ھے آپ اللہ کے راہ میں کیا دیتے ھیں


محترم صدر صاحب کے چہرے پہ ازلی مسکراہٹ سجی ھوئ  تھی
انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا

میرے پاس اللہ کا دیا اور بندوں سے لیا ھوا بہت کچھ ھے
اور جو کچھ بھی ھے وہ سب اللہ سائیں کا ھی ھے
میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں مجھے حیرت ھے آپ نے مجھ سے یہ سوال کیا
میں تو اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رھتا ھوں
میں تو صبح آنکھ کھولتا ھوں تو شہادت کی آرزو لیے ھوئے کھولتا ھوں
اللہ مجھے جو بھی دیتا ھے میں اس کی راہ میں دے دیتا ھوں

صحافی نے حیرت سے پوچھا
سر آپ نے آج تک کیا کیا اللہ کی راہ میں دیا ھے

دیکھو بابا صدر صاحب نے ایسے مسکراتے ھوئے اسے دیکھا جیسے ایک بزرگ نادان بچے کو دیکھتا ھے
میری جتنی بھی ایک دن کی کمائ ھوتی ھے وہ میں جھولی میں بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیتا ھوں
اللہ سائیں نے جو اپنے پاس رکھنا ھوتا ھے وہ رکھ لیتا ھے باقی میری طرف پھینک دیتا ھے



فراغ دلی کی ایسی اعلیٰ مثال ملنا مشکل ھے حاتم تائ بھی پانی پانی ھو رھا ھوگا ایسی دریا دلی پہ


نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں صدر کا نام نہیں لکھا کیا پتا یہ کسی کمیٹی کے صدر کی کہانی ھے یا کسی کمیشن کے صدر کی آپ اپنی مرضی سے اپنی پسندیدہ شخصیت کا نام  فٹ کر سکتے ھیں یہ آپ کی مرضی پہ ھے دیکھتے ھیں کس کس کی سوچ ملتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔