Wednesday, October 26, 2011

زندگی اور موت


میں یہ تصویر کافی دیر تک دیکھتی رھی
کیا یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت نہیں


موت ۔۔۔ منوں مٹی تلے ۔ خالی ھاتھ دنیا کا سب مال و دولت دنیا میں رہ جاتا ھے
جب کوئ کسی کو دفناتا ھے تو کیا ایک پل کے لیے اسے اپنی زندگی کی حقیقت سامنے نہیں آتی
وہ یہ نہیں سوچتا کچھ عرصہ کے بعد اس نے بھی یہیں آنا ھے
کتنا بھی جی لے
پچاس سال ۔ ستر اسی یا سو سال ۔ اس دنیا کو چھوڑ کر سب آسائیشوں کو چھوڑ کر مٹی بن جانا ھے
اس تصویر میں موجود سبھی لوگوں میں سے کتنے ھیں جن کی روح ایک پل کے لیے لرزی ھوگی ۔ مجھے کسی کے چہرے پہ کچھ نظر آرھا -
یہ قبر ھے مادرِ جمہوریت کی جنھیں کے نام سے نوازا گیا وہ پندرہ سال سے ایک زندہ لاش تھیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں جب بھی جمہوریت کا نام آیا تو کبھی کسی نے ان کا نام نہیں سنا ان کی قربانیوں کا زکر نہیں سنا کبھی ان کی صحت یابی کی دعا کروائ گئ ۔ جب وہ زندہ تھی تو سب ایسے بھولے ھوئے تھے جب مر گئیں تو ھر کوئ ان کے گن گا رھا ھے
کیا ھی اچھا ھو جب انسان زندہ ھو تو اس کی خوبیوں کا زکر اپنی محبت کا زکر اس کے سامنے کیا جائے اس کو نوازا جائے
مگر یہ دنیا ھے ۔۔ اور ان کا تعلق تو سیاست سے تھا لگ رھا ھے ان کی زندگی سے سیاست کی گئ اور موت پہ بھی

Wednesday, October 12, 2011

جلتا ھے زمانہ کیوں



حکومت کسی کی بھی ھو اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ھے ۔ آمریت ھو تو بھی لوگ  خوش نہیں ھوتے ھر اقدام پہ تنقید کرتے ھیں مخالفت کرتے ھیں جب جمہوریت ھو تب بھی لوگوں خوش کرنا مشکل ھے 
کہا جاتا ھے مشرف کے زمانے میں فارم ہاؤس کا کلچر متعارف ھوا ۔ پہلے لوگ پلاٹ مانگتے تھے یا انھیں خوش ھو کر نوازا جاتا تھا مشرف کے دورِ حکومت میں رہائشی پلاٹوں کی دلچسپی میں کمی آگئ کیونکہ سب کو اچھی رہائش میسر تھی بادشاہ جب خوش ھوتا ھے تو وہ اپنے من چاھے لوگوں کو خوش کرتا ھے یہ تو صدیوں سے ھوتا آرھا ھے اگر مشرف صاحب نے ان لوگوں کو جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ھیں یا جنھوں  نے ان کا ساتھ دیا انھیں دس پندرہ ایکڑ زمین کے معمولی ٹکڑے دے بھی دئیے تو کیا پہاڑ ٹوٹ پڑا کیا ھے اگر وہ معصوم لوگ فارم ہاؤس بنا لیں پتا نہیں زمانہ کیوں جلتا ھے ان ریٹائر آفیسروں کا بڑھاپا مصروف گزرے گا اپنے فارم ہاؤس پہ - غریبوں نے کیا کرنا ھے پلاٹ لے کر جو ڈھائ تین مرلے کے پلاٹ پر ایک پکا کمرا نہیں بنا سکتے 

عام سپاہی کی زندگی میں کوئ بدلاؤ نہیں آیا عام انسان کی زندگی میں بھی کوئ بدلاؤ نہیں آیا اب یہ اعتراض بھی کوئ اعتراض ھے بھئ عام انسان عام سی زندگی ہی گزارے گا خاص ھوتا تو کوئ بات بھی تھی ۔ عام 
آدمی سانس لے رھا ھے کیا اس کے لیے اتنا کافی نہیں ؟؟ پتا نہیں عام آدمی اتنا نا شکرا کیوں ھے 

آج کل ایک خبر گرم ھے جس پر بہت بحث چل رھی ھے ھمارے پیارے وزیرِ داخلہ محترم رحمان ملک صاحب کو اعزازی ڈگری سے نوازا گیا ھے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئ ھے اس پہ بھی لوگوں کو اعتراض ھے 

پہلے ھی پاکستان کی پچاس فیصد آبادی نا خواندہ ہے یہ تو حکومت کا بہت ھی احسن فیصلہ ھے ڈاکٹر بننے میں انسان کی آدھی عمر گزر جاتی ھے اچھا نہیں ایسے ھی لوگوں میں ڈگریاں تقسیم کر دی جائیں اس طرح موجودہ حکومت کے دور میں خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ھوگا اور جو انتخاب میں حصہ لینے کے لیے بی اے کی شرط تھی اس کا بہت موثر جواب ھوگی سب ارکانِ اسمبلی میں ڈگریاں تقسیم کرنی چاھئیے یہ پڑھا لکھا پاکستان بنانے میں ایک عملی قدم ھوگا سنا ھے بھارت کے سولہ ارکانِ اسمبلی پی ایچ ڈی ھے اس کے مقابلے پہ پاکستان کا ھر پالیمانِ اسمبلی  پی ایچ ڈی ھوگا اور جعلی ڈگریوں کا مسلہ بھی ختم ھوجائے گا 

چودہ اگست کے بعد بھی بہت شور و غوغلہ ھوا تھا جب ستارہ امتیاز سے لوگوں کو نوازا گیا تھا لوگوں نے کہا یہ اعزازات قوم کی امانت ھوتے ھیں اور قوم کی امانت میں خیانت کی گئ ھے یہ بھی کوئ بات ھے قومی اعزاز اگر قوم کے معزز نمائندوں میں تقسیم کر دئیے تو کون سا قیامت آگئ ایک عام آدمی جس کو کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رھی وہ تمغوں کا کیا کرے گا چاٹے گا ؟؟؟
ویسے بھی چودہ اگست آزادی کا دن ھے اگر اس دن حکومت نے بھی تھوڑی سی آزادی کا اظہار کر دیا آمریت کے طویل دور کے بعد یہ دن نصیبوں سے ملے ھیں کیا پتا کل کیا ھو جائے سال بھر کے بعد پھر انتخابات ھو ں گے پتا نہیں پھر اپنی من مانی کرنے کا موقعہ ملے یا نہ ملے بیچاروں کو کچھ موج مستی کر لینے دو مگر نہیں کسی کو کیسے خوش دیکھ سکتے ھیں یہ دنیا بڑی ظالم ھے چار دن خوش بھی نہیں ھونے دیتی - پتا نہیں یہ دنیا اتنا جلتی کیوں ھے ؟؟

Tuesday, October 11, 2011

ایک خوبصورت آواز


اللہ سب کا رب ھے چاھے کوئ اسے مانے یا نہ مانے اسے نوازتا ھے جگجیت سنگھ جنھیں اللہ نے بہت خوبصورت آواز سے نوازا اور اس کا استعمال انھوں نے خوب کیا پرانی شاعری کو زندہ کیا غزل کو زندگی دی
مجھے شاعری پسند نہیں تھی سمجھتی تھی بےکار لوگوں کا کام ھے غزلیں سننے کے بعد شعروں کے بعد غور کرنے کے بعد شاعری سی عشق ھو گیا میرا خیال ھے جو انسان شعروں ادب سے محبت کرتا ھے وہ زندگی میں کبھی کسی سے نفرت نہیں کر سکتا
آج ایک انسان دنیا سے چلا گیا  انسان دنیا میں آتا ھی جانے کے لیے ھے ۔ انسان دنیا میں آتا ھے بچپن میں محبتیں سمیٹتا ھے جوان ھوتا ھے  محبتیں بانٹتا ھے وہ صلاحیتیں جو اس کے رب نے اسے عنایت کی ھیں انھوں بروئےکار لاتے ھوئے دنیا میں اپنا نام پیدا کرتا ھے
جگجیت سنگھ کو اللہ نے خوبصورت آواز سے نوازا اب کی آواز ان کی پہنچان بن گئ آج وہ ھم نہیں مگر ان کی آواز ھمیشہ گونجتی رھے گی
یاد تو رھیں گے ھمیشہ جب بھی خوبصورت گائیگی کا ذکر ھوگا
پنجابی گیت اور غزلیں انھوں نے کم گائے ھیں ۔ پنجابی ماھیئے اورٹپے پنجاب کا خوبصورت تحفہ  جگجیت اور چترا کی آواز میں






 گزرا زمانہ سب کو یاد آتا ھے خاص طور پر بچپن کا زمانہ

اپنی زندگی گزار کر خوشی اور غم کے ھر احساس سے بے نیاز ھو گئے اللہ مغفرت فرمائے


Sunday, October 2, 2011

گدھوں کی میٹنگ


یہ کائنات بہت بڑی ھے کر ملک ھر بستی کی اپنی کہانی ھے ایک کہانی مجھے آج سب کو سنانی ھے یہ صرف ایک کہانی ھے اگر آپ کو یہ اپنے آس پاس کی کہانی لگے تو بندی کچھ نہیں کہہ سکتی جو بھی مماثلت ھوگی وہ محض‌ اتفاقیہ بھی ھو سکتی ھے



کہتے ھیں ایک بستی میں گدھوں کا راج تھا بڑی خوبصورت بستی تھی ھر طرف ھریالی ھی ھریالی تھی مگر گدھوں کی غلط حکمت علمی کی وجہ سے حالت بگڑ رھے تھے گدھوں کو کھانے کا تو پتا تھا مگر اگانے کی فکر نہیں تھی کھیت کے کھیت اجڑ رھے تھے مگر انھیں کوئ فکر نہیں تھی وہ آس پڑوس کی بستیوں سے مانگ کر اپنی ضروریات پوری کر لیتے تھے بستی کے عام گدھے بھوکوں مر رھے تھے مگر حکمران گدھے اپنے حال میں اور اپنی کھال میں مست تھے حکمرانوں کے اس روئیے کو دیکھ کر دشمنوں نے سازشیں شروع کر دیں جب کسی نے ان پہ توجہ نہیں دی تو وہ بستی میں گھس آئے اپنی من مانی کرنے لگے نا ان ملک دشمن عناصر کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئ نا انھیں پکڑنے اور سزا دینے کے لیے کچھ کیا گیا

حالات بگڑنے لگے طاقتور بستی والوں نے انھیں دھمکی دی ان کے مطالبات مانے جائیں ورنہ ان کا چارا بند کر دیا جائے گا کسی بھی طرح کی کوئ امداد نہیں کی جائے گی  وہ سب جو اپنے حال میں مست تھے جنھیں پیٹ بھر کے کھانے کو مل رھا تھا یہ دھمکی سنتے ھی بلبلا اٹھے

سردار گدھے نے سب سردار گدھوں کو ایک میٹنگ میں بلایا تاکہ مل کر فیصلہ کیا جائے ان حالات میں کیا کیا جانا چاہیے -- چاہیے تو یہ تھا کوئ لائحہ عمل طے کیا جاتاتھا کوئ ٹھوس تجویزات ھوتی جن پر غوروفکر کیا جاتا اس کے بجائے اس پہ زیادہ توجہ دی گی کھانے کا مینو کیا ھو گا ھر طرح کی گھاس کہاں کہاں سے منگوائ جائے کون کون سا مشروب پیش کیا جائے گا مرکزی اسٹیج پر کون بیٹھے گا کس کو داھنے طرف جگہ دینی ھے کسی کو بائیں طرف بیٹھانا ھے آنے والے شرکاء کو بھی اس بات کی زیادہ فکر تھی کون سی ٹائ لگائ جائے کون سا سوٹ پہنا جائے گا کس کی کس طرح ڈھکے چھپے انداز میں طنز و تحقیر کرنی ھے سب محب الوطن گدھے یہ سوچ کر آئے تھے کون سا بیان دینا ھے جو بریکنگ نیوز بن سکے کوئ ایسا بیان جس سے میڈیا میں اور عام گدھوں میں بئے جا بئے جا ھو جائے عام گدھوں کی دکھتی رگ کو کیسے چھڑا جائے ان کو جذباتی کر کے اپنی سیٹیں پکی کی جائیں

سب میٹنگ میں ایک دوسرے ایسے مل رھے تھے جیسے عید میں یا کسی ٹی پارٹی میں آئے ھوئے ھیں ان کے لیے یہ ایک پارٹی ھی تھی انھیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں تھا وہ جب بھی صبح اٹھتے اپنی کھڑکی سے باھر دیکھتے تو انھیں اپنے محل کی بلند و بالا محفوظ دیواریں نظر آتیں درجنوں محافظ نظر آتے ھرے بھرے دالان نظر آتے تو وہ کیسے محسوس کر سکتے تھے عام گدھے کس بے یقینی اور بدامنی میں زندگی بسر کر رھے ھیں وہ بیرون ِ ملک اپنے بچے اور اثاثے محفوظ کر چکے تھے



ایک طویل میٹنگ ھوئ جس میں ھر کوئ اپنی ھانک رھا تھا کسی کو اپنی عقل و دانش کی دھاک بیٹھانے کی جلدی تھی کسی کو اپنی طاقت کا نشہ ۔ کسی نے بھی تلخ حقائق کافکر و تدبر سے حل پیش نہیں کیا حکمران گدھوں کی نظر میں یہ میٹنگ ان کی عظیم قیادت کی کامیابی کی دلیل تھی میٹنگ کسی بھی نتیجے پہ پہنچے بغیر ختم ھوگئ مگر سب شرکاء خوش تھے کسی کا خیال تھا اس کا بیان اتنا زبردست ھے جس کے بنا پر اسے پر خلوص قائد کے طور پر مان لیا جائے گا کسی نے مسقبل کے بارے میں اچھے بیان دئیے تھے جس کی بنا پر اسے یقین تھا ائندہ ووٹ اسے ھی ملیں گے حکمران پارٹی خوش تھی وہ اپنی مدت پوری کر لے گی اور آئندہ بھی وہ عام گدھوں کا مذید گدھا بنا سکے گی وہ اس خوشی میں دو باتیں بھول گئے کہ ان کی ناک میں نکیل ڈلی ھوئ ھے اور نکیل ڈالنے والا انھیں کبھی بھی اپنی مرضی سے کہیں بھی ہانک سکتا ھے سب گدھوں نے مل کر اس کا حل نہیں سوچا انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا وہ امداد بند کرنے کی دھمکیوں سے کیسے جان چھڑا سکتے ھیں کیسے اپنے کھیتوں کر ھرا بھرا کر سکتے کیسے اپنی وہ بے جان دولت جس میں ان کی جان تھی جو دشمن بستیوں میں بےکار پڑی تھی اسے اپنی بستی کے مسائل حل کر سکتے ھیں اگر اتنی عقل ھوتی تو نا ان کے ناک میں نکیل ھوتی نہ وہ گدھے کہلاتے اور ان کو اپنا سردار بنانے والے اور بھی گدھے تھے اگر گدھے نہ ھوتے تو ان کی آنے والی نسلوں کو بھی اپنا سردار تسلیم نہ کر لیتے