Tuesday, November 24, 2015

توہینِ انسانیت

قصور کے واقعے کے بعد لاہور کے ہوٹل کی وڈیو دیکھی ۔۔ اسے شئیر کرنا مناسب نہیں ۔ وہ کلپ بہت سے لوگوں نے دیکھا ہوگا ۔ حیرت ہے کسی کی غیرتِ ایمانی نہیں جاگی ۔ دل چاہ رہا ہے جہلم کے لوگوں کو وہ ووڈیو دیکھاؤں کتنے لوگ لاٹھی ہاکی بیٹ جو ھاتھ لگے اینٹ پتھر لے کر گھر سے نکل آئیں گے کلمہ گو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والے مسلمان کیسے قومِ لوط کے نقشے قدم پر چل سکتے ہیں کسی بھی ایمان بھرے دل کے مالک انسان سے یہ برداشت ہو سکتا ہے کوئ قرآن کے حکم کو پسِ پشت ڈال دے 
یقینا ایسے ہوٹلوں کے اور ایسے لوگوں کو زندہ جلا دیں گے یہ قرآن کی توہین ہے جسے پڑھ کر چوم کر گھر کی سب سے اونچی جگہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کا ایک ورق بھی اگر کوئ ذات کا کمی چھو لے تو بے حرمتی ہو جاتی جواب میں ایسے کافروں کو زندہ جلا کر اپنی جنت پکی کی جاتی ہے ۔ دنیا میں جلانے کی سزا کافر کو دی جا سکتی ہے مسلمان قیامت تک آزاد ہیں ان کی جنت اور جہنم کا فیصلہ بہت پیار سے اللہ تعالیٰ کریں گے ستر ماؤں جتنا پیار اللہ اپنی مخلوق سے نہیں صرف مسلمان سے کرتا ہے ۔ 

قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہی دی جا سکتی ہے ۔ جھوٹی قسم کھائ جا سکتی ہے ۔ اس سے عورتوں سے نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ مردوں کے بنائے گے معاشرے کے مردوں نے سمجھا شاید قرآن کو بھی نکاح کی حاجت ہے ۔گھر کی بہنوں بیٹیوں کا نکاح قرآن سے کر انھیں ایک بیوہ سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کوئ اس روایت کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا کیونکہ برسوں پرانی روایت ہے سب اس کے عادی ہو چکے ہیں ۔ اور سوچنے سمجھے کی
کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔۔ 
پاکستانی بہت جذباتی قوم ہیں ۔ معاشرے کی برائیوں کو دیکھ کر جذباتی کیوں نہیں ہوتے ۔ اپنے اندر کی دبی ہوئ بھڑاس کمزور کو مار کر نکالتے ہیں - کبھی کبھی ایسا لگتا ہے قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے ایک باپ اپنی بیٹی کو روٹی گول نا بنانے کے جرم میں مار دیتا ۔ دوسرا باپ بیٹی کو اپنی پسند کی شادی کرنے کے جرم میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیتا ۔ چوری کے شک میں دو بھائیوں کے پورا شہر مل کر تشدد کرتے کرتے مار دیتا ہے ۔ 
پھر یہ لوگ ایسے لوگوں پر رحم کیسے کر سکتے ہیں جو نا ان کے فرقے کے ہیں نا مذہب کے جو ان کی نظر میں ویسے بھی کافر ہیں انھیں مارنے کا تو ویسے بھی ثواب کا کام ہے ۔۔۔۔ ثواب کا کام کرنے میں مسلمان کیسے دیر کر سکتا ہے ۔۔۔
زرا بتائیں کہیں قرآن کی بے حرمتی تو نہیں ہو رھی ۔۔۔۔۔ کچھ دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں حقیقت کیا ہے واقعہ کیا تھا میں ریڈی ہوں کہاں آگ لگانی ہے ماچس بھی پاس تیر تلوار تو پاس نہیں پھر بھی کچھ نا کچھ تو مل ہی جائے گا کھاٹ کباڑ گلی کوچوں سے مل جائے گا آگ بھڑکانے کے لیے ۔۔۔
توہین انسانیت ہم برداشت کر سکتے ہیں انسانیت کے بارے میں ہمارا مذہب کیا کہتا ہے ۔۔ چھوڑیں ۔۔۔ 
بچوں سے زیادتی ہو رہی ہے ۔۔ ہونے دیں ۔۔۔۔ غریبوں کے بچے ہیں ۔۔۔ لا وارث ۔۔۔۔ مر بھی گئے تو ۔۔۔
دفنانے والا بھی نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ دھرتی کا بوجھ 

Sunday, November 15, 2015

تضاد

پاکستان سے لوگ یورپ آتے ہیں امریکہ کینیڈا جاتے ہیں ۔ گھر والے قرض لے کر گھر کی عورتیں اپنا زیور بیچ کر اپنے بیٹوں اور شوہروں کو پردیس بھیجتی ہیں کئ رستے میں مارے جاتے ہیں ۔ باقی برسوں محنت کرتے اپنی زندگی سیٹ کرنے کے لیے ۔ جو بھی یہاں آتا ہے اس کا مقصد یہاں تباہی مچانا نہیں ہوتا ایک بہترین مستقبل اور پاکستان میں اپنے گھر والوں کو سپورٹ کرنا ہوتا ہے ۔ جب بھی کو ئ دھشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو ان سب لوگوں کو نفرت اور ہر طرح کے ری ایکشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے  لوگ فرانس کے واقعے کے بعد جن لوگوں نے اپنی ڈی پیز فرانس کے پرچم کے ساتھ لگائے ہیں انھوں لعن طعن کر رہے ہیں -جتنے بھی لوگ فرانس کا پرچم لگا رہے ہیں ان کا مطلب یہ ہر گز نہیں انھیں پاکستان یا اسلام سے محبت نہیں ۔ اس کا صرف ایک مقصد ہے وہ دھشت گردوں کے ساتھ نہیں ۔ 
جن کے دل میں اسلام کا درد جاگا ہوا ہے پاکستانیت جن میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئ ہے ۔ روزانہ کسی نا کسی اسلامی ملک میں  درجنوں لوگ مر رہے ہیں وہ کیا کرتے ہیں ؟؟ پاکستان میں ھزارہ کمیونٹی کے ھزاروں لوگ مارے گئے کیا ہوا ؟؟ درباروں مزاروں مساجد میں بے گناہ مارے گئے تو یہی لوگ صفائ پیش کرتے نظر آتے ہیں یہ کس وجہ سے کر رہے ہیں تب صرف صفائ دیتے نظر آتے ہیں - مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی ۔ اور اگر ان کا یا ان کے بیٹوں کو یورپ اور امریکہ کا ویزہ مل جاتا ہے تو خوشی سے لڈو بانٹتے نظر آتے ہیں 

ٹی وی پر خبر آرہی ہے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس میں پہلی بار اتنے لوگ اتنے لوگ مارے گئے ہیں  - سارا یورپ ایک ساتھ اکھٹا کھڑا ہے  - مسلم امہ کا شور مچانے والے کب اور کہاں اکھٹے ہوئے تھے  ایک محلے کی مسجد میں لوگ مارے جاتے ہین تو فرقہ دیکھ کر افسوس کرتے ہیں - مگر چاہتے ہیں دنیا ہمارے دکھ کو محسوس کرے  جب ہم خود اپنے دکھ کو محسوس نہیں کرتے تو دنیا کو کیا پڑی ہے  کتنے ملک تباہ ہو گئے مسلم امہ کیا ایک ساتھ کھڑی ہوئ کہ اگر کسی مسلم ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو ہم ایک ہیں -
یہ دکھ نا قابلِ برداشت ہے لوگ فرانس کے دکھ میں دکھی کیوں ہو رہے ہیں  - جب تک تضاد ختم نہیں ہوں گے ہم مار کھاتے رہیں گے 


نومبر کے کچھ فیس بک کے سٹیٹس

چند لفظوں کی کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ گیارہ ستمبر کو امریکہ کے ٹاروز پر حملہ ہوا ۔ کہا گیا یہ حملہ طالبان نے کیا ہے
دنیا میں شور مچا ۔ طالبان نے کہا سوری
اور پھر سب ھنسی خوشی رہنے لگے


.........................................................................................

یورپین ممالک کے سربرہان میرے فیورٹ ہیں ۔ ان کا ایک شہری بھی مارا جائے تو طوفان اٹھا دیتے ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم سے ایک انٹر نیشنل ادارے کی اینکر انٹرویو لیتے ہوئے کہتی ہے پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں نو جوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔
اور ہمارا وزیر اعظم کہتا ہے تو جائیں روکتا کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اینکر حیرت سے اگلا سوال بھول جاتی ہے

..................................................................................

پاکستانی جمہوریت میں اتنا حسن کہ وہ ملکہ حسن بن سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تالیاں


...........................................................................................

یورپ میں عام شہری پاسپورٹ اپنے پاس نہیں رکهتے .. یورپ بهر میں سفر کرنا ہو تو شناختی کارڈ کافی ہوتا ہے ..... دهشت گرد اپنی شناخت کے لئے پاسپورٹ ساتھ لے کر گهومتے هیں ......

.....................................................................

فیس بک پر اندازہ ہوا ... شیطان کے پاس انٹر نیٹ ہے ... وہ بھی فیس بک پر ہے خود کچه شئیر نہیں کرتا اور آپ کو بهی شئیر کرنے سے روکتا ہے


..............................................................

پیزس حملے کے بعد سے سوچ رہی ہوں ... کون سے مسلم ملک کی ہڈیاں زیادہ مضبوط ہیں . جو توڑنے کے قابل ہیں . عراق کی ابهی تک آہیں نکل رہی ہیں ... ادهر سے سوری آچکا ہے

....................................................................

ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے ۔۔ یہ اس بات پہ منحصر ہے ری ایکٹ کرنے والا کتنا پاور فل ہے

........................................................

دنیا میں کہیں بھی کوئ دہشت گردی کا واقعہ ہو ۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلا سوال ہوتا ہے ۔ دھشت گردوں کا تعلق کہاں سے ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر مسلمان ہوں تو ذہنی طور پہ تیار رہنا پڑتا ہے لوگوں کی نظروں کا
..............................................................
اگر اظہار یکجہتی کے لیے ڈی پی رنگین کرنی ہوگی ۔ تو مجھے بہت سے ممالک کے پرچم چائیے

........................................................................
لاش کا کوئ مذہب نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ بھی مرے مرتے انسان ہیں

...............................................................................
ابھی ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا جو مسلمان ہے وہ اسے ضرور شئیر کرے گا ....اور میں نے شئیر نہیں کیا .... مفتیان فیس بک کیا کہتے ہیں . تجدیدِ ایمان کے لیے خود ہی کلمہ پڑھ لوں یا کسی مولانا کے پاس جاوں ،؟؟؟؟
.....................................................................





Monday, June 22, 2015

خبریں اور تبصرے

کراچی میں بارش ہونے پر حکومت نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔ موسم ٹھنڈا ہونے پر لوگوں کا مزاج بھی ٹھنڈا ہونے کی توقع ہے ۔۔۔ ویسے تو گرمی کی شدت سے سنا ہے دو ڈھائ سو لوگ ٹھنڈے ہو کر ایدھی کے کول ہاؤس میں پہنچ گئے ہیں ۔ 

شہر میں کئ مقامات پر لوگوں کی قطاریں لگی ہوئیں ہیں جیسے من و سلویٰ مفت میں تقسیم ہو رہا ہے معلوم کرنے پر پتا چلا برف بک رہی ہے ۔ لوڈ شیڈنگ نے فرج کو بھی پانی پانی کر دیا ہے ۔۔۔۔۔

محترم وزیرِاعظم کا فرمان ہے بجلی کے مسلے کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے ۔۔۔۔۔
اور واقعی وہی ہو رہا ہے جنگی حالات میں ہوتا ہے ۔۔۔ شہر بھر میں بلیک آؤٹ 

بی بی نے مرنے سے پہلے قاتلوں کے خلاف ایف آئ آر کٹوا  دی تھی ۔۔۔ ان کے قاتلوں کو معاف نہیں کیا جائے گا 
ہم اپنے پانچ برس کے دورِ حکومت میں خواب کی کیفیت میں تھے کہ ۔۔ ہم بر سرِ اقتدار آچکے ہیں ۔۔۔۔
پانچ برس حکومت بچانے کے لیے جوڑ توڑ میں  اور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں لگے رہے 
کیونکہ دونوں ہاتھ اور دماغ جوڑ توڑ میں مصروف تھا اس لیے قاتلوں کی طرف نہیں گیا - اب اپنےدھواں دھار  بیان کے بعد بی بی کا کارڈ کھیلنا  نا گزیر ہو گیا تھا  ۔۔۔۔۔

سیاستدانوں کو اپنے مسائل  افہام و تفہیم سے حل کرنے چاھئیے ۔۔ خورشید شاہ
جب ایک ہی تھالی میں کھانا ہو تو مل جل کر کھایا جائے تو برکت ہوتی ہے ورنہ تھالی ہی الٹ جاتی ہے  ۔ 

بجلی کی بندش کے خلاف  ۔۔ شہریوں کا احتجاج 
حسب معمول  ٹائر جلائے گئے  ۔  آسمان  آگ برسا رہا تھا ۔  لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن کر دی تھی  ۔ تو عوام پیچھے کیوں رہتے  ۔ اپنا حصہ تو ڈالنا تھا 


محنت ایمانت اور دیانت جیسے سنہرے اصول اپنا کر پاکستان کو ترقی کی منازل سے ہمکنار کریں گے  ۔۔۔۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے خادم ِ اعلیٰ نے فرمایا 
یہ مستقبل کے پلان ہیں   عوام فی الحال بیان پر گزارہ کریں 

 لوڈ شیڈنگ کا جن قابو سے باہر  ۔۔۔۔۔۔
ویسے تو مہنگائ کا جن  ۔۔۔ کرپشن  کا جن بھی  قابو سے باہر ہو چکا ہے ----- جنوں کو قابو کرنے والے عاملوں  سے رابطہ کریں  ۔ کیا پتا وہ کوئ طریقہ نکال لیں ---

چائنا کٹنگ میں بڑے بڑے نام آتے ہیں -----
فیشن ڈزائینرز کے نہیں سیاست سے وابستہ لوگوں کے نام ہیں ۔۔۔  یہ کوئ ہیئر اسٹائل نہیں زمینوں پر غیر قانونی قبضے کی  کٹنگ ہے 
کروڑوں روپے انتخابات  میں لگانے والے چند ہزار کے لیے تو اقتدار میں نہیں آتے پیسے بھی تو پورے کرنے  ہوتے ہیں پورے سود کے ساتھ  


غیرت کے نام پر اپبی بیوی کو قتل  کر دیا ۔۔۔ غیرت کے نام پر کرنے کے واقعات اخبار کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ جو کہ معمول کی بات  ہے ۔ خبر تب ہو گی جب کوئ ماں یا بیوی اپنے بد کردار بیٹے یا  شوہرکو غیرت کے نام پر قتل کر دے گی ۔۔۔۔ غیرت صرف مردوں میں پائ جاتی ہے جس کا وہ اظہار آئے دن تیزاب پھینک کر یا ناک یا گلا کاٹ کر کرتے رہتے ہیں ۔۔۔

Sunday, May 10, 2015

زندگی کے موسم



وسیع اور پر شکوہ چار منزلہ بلڈنگ کوئ بھی گزرتے ہوئے سرسری نظر کے بعد کچھ دیر کھڑے ہو کر غور سے ضرور دیکھتا ہے خوبصورت لان قطار میں لگے پودے اور کیاریوں میں بہار دیکھاتے پھول چھوٹے بڑے فوارے کونے پر بنی مصنوعی آبشار جس کا پانی جل ترنگ بکھیر ے رکھتا ہے  داخلی دروازے کے بائیں  جانب پر وال ٹو وال شیشے کے دروازے اور کھڑکیوں  پر مشتمل کیفے ٹیریا   جس میں بیٹھ کر آپ باہر کے نظارے سے دل بہلا سکتے ہیں دائیں جانب لائیبریری ساتھ  وسیع اور روشن ٹی وی لاؤنج  اس میں بیٹھے باتیں کرتے ھوئے اور ہنستے ہوئے لوگ دوسری جانب ریلیکس روم جہاں آپ اپنا وقت خاموشی سے گزار سکتے ہیں سائیڈ پہ ایک پیانو دھرا ہے 
سامنے ایک لمبا کوریڈور دونوں جانب کمرے بنے ہیں چلتے ہوئے اپنا مطلوبہ نمبر نظر آیا ہلکے سے دستک دی دروازہ کھولا سامنے ایک اجلے رنگ کی بزرگ خاتون دراز تھی 
میں انھیں نہیں جانتی تھی میری دوست کی فیملی ملنے جا رھی تھی میں بھی ان کے ساتھ ملنے چلی گئ 
اتنے لوگوں کو دیکھ کر کھل اٹھی سب کا حال پوچھ رھی تھیں ۔ اپنے بچوں کی باتیں بتا رھی تھیں ۔ خود ہی سوال کرتی خود ہی جواب دینے لگتی 
باربار اپنے سب بچوں ذکر کر رھی تھیں
احمد نہیں آیا ۔۔۔۔۔ ہاں بیچارے کی طبیعیت ٹھیک نہیں تھی ایسی لیے نہیں آیا ہوگا
فوزیہ نے کتنے دن سے فون نہیں کیا ۔۔۔۔ اس کی بیٹی کے گھر میں مسلہ چل رھا تھا بس اسی کی پریشانی میں فون نہیں کیا ہوگا  اللہ اس کی پریشانیاں دور کرے 
قانتہ  ملنے کیسے آ سکتی ہے اسے تو خود جوڑوں کا درد ہے 
تھوڑی دیر بعد انھیں اپنے کسی بچے کا خیال آتا  - پھر خود  ہی اس کی مجبوری  بیان کرنے لگتیں 
ہم لوگ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر اٹھ آئے 
یہ  یہاں کا اولڈ ہوم  ہے ۔ یہاں لوگ  اولڈ کہلانا پسند نہیں کرتے  ستر پچھتر برس کی عمر میں بھی خود کو جوان  مانتے ہیں  اس لیے  اس کا نام سینئر  ہاؤس رکھا گیا ہے 
بھاگتی ہوئ زندگی میں  سبھی مصروف ہیں کچھ لائف اسٹائل ایسا ہے سب اس کے عادی ہیں یہاں لوگ    یا  تو شادی نہیں کرتے یا بچوں کا جھنجٹ نہیں پالتے  - بچے ہوں بھی تو اٹھارہ برس  کی عمر کے بعد اپنی مرضی سے والدین کے ساتھ رہنا چائیں تو ٹھیک ہے ورنہ  جا سکتے ہیں والدین ذہنی طور پر  اس کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ بوڑھے ہونے پروہ جانتے ہیں ان کا ٹھکانااو لڈ ہومز ہیں ۔
سینئر ہاؤس میں گروپس میں بیٹھے  قہقہے لگاتے  لوگ دیکھے ٹی وی لاؤنج کیفے ٹیریا لائبریر ی میں بیٹھے لوگ  سب اسی معاشرے میں پلے بڑھے تھے  سب کی زبان ایک تھی   خوش گپیوں میں مصروف  مگر ایک پاکستانی ماں  یا پاکستانی باپ جس کی زندگی جس کے خواب  جس کی زندگی کا محور اس کا گھر اس کے بچے ہوتے ہیں اسے اکیلے  رہنا ایک عذاب سے کم نہیں  ۔  اور ایک پاکستانی عورت جو اس معاشرے میں پلی بڑھی نہیں جس کی زبان  الگ ہے  جو بڑھاپے میں بھی خود کو چادر میں لپیٹے رکھتی ہے اجنبی لوگوں میں اٹھنا بیٹھا گھومنا پھرنا ایک بڑےامتحان سے کم نہیں 
وہ بزرگ عورت   جس نے تیس پنتیس  برس بیوگی کے گزارے  اس میں زیادہ وقت ایک بیٹے کے پاس رہیں  - بیٹے کو ہارٹ اٹیک ہوا بہو بھی بیمار تھی کوئ اور بچہ رکھنے کو تیار نہیں تھا  سب کی اپنی اپنی مجبوریاں تھی  پھر آخری ٹھکانا  اولڈ ہوم ٹھہرا   آٹھ ماہ اولڈ ہوم رہنے کے بعد     مدر ڈے کے  ایک دن پہلے اپنے بچوں کی مجبوریاں کو جانتی تھیں  اس لیے خاموشی سے دنیا سے چلی گئیں 
آج   مدر ڈے ہے سینئرز ہاؤس میں لوگ بہت خوش ہیں  کسی کے بچے کا فون آرہا ہے کسی کا بچہ پوتا   یا نواسہ ان سے ملنے آرہا ہے کسی نے  پھول بھیجے ہیں  کتنے اچھے بچے ہیں  اتنی مصروف زندگی  میں  اتنی دور سے  ملنے آرہے ہیں  ۔ کتنی  خوشی کی بات ہے آج مدر ڈے ہے اور بچوں کو یاد ہے  کسی ماں کے لیے اتنی خوشی بھی  بہت ہے 
میں اپنے ماں باپ کو دیکھتی ہوں بچوں میں بیٹھا   چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہوتا ۔ اور تنہائ میں خاموش بیٹھا  ان کا اب کوئ اپنا  خواب نہیں  بچے ان کی حقیقت ہیں   
ماں باپ کے خواب  اور زندگی ان کے بچے ہوتے ہیں  مگر بچوں  کے خواب ان کے  اپنے حوالے سے ہوتے ہیں  - پردیس میں بچے اپنے خواب پورے کرنے آئے ہیں اور دیس میں بیٹھے ماں باپ ان کے خواب پورے ہونے کے لیے خدا کے سامنے  ہاتھ پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں   -
پاکستان میں پارک میں بیٹھے بوڑھے لوگوں کو دیکھا جو دن بھر پارک میں کسی درخت کے نیچے  سرجھکائے بیٹھے  رہتے ہیں  شاید سر اٹھا کر دیکھنے کے لیے  ان کے پاس کچھ نہیں  ہوتا ۔ 
ایک دن ٹی وی آن کیا  تو بچوں کے بارے میں  پروگرام چل رہا تھا  ۔ ایک این جی او  کے خاتون آئیں ہوئ تھی  وہ بتا رھی تھی وہ یتیم خانہ چلا رہی ہیں  رات کے اندھیرے میں کبھی لوگ ان کے دروازے پہ بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ جاتے ہیں  حکومت کو چاہیے بوڑھوں کے لیے  کچھ کرے  - 
لمبی عمر  رحمت ہے  کبھی زحمت بن جاتی ہے انسان کے اپنے لیے  ۔ کبھی اپنوں کے لیے  ۔ محبت کم ہو تو زندگی مشکل  بن جاتی ہے وسائل کم ہوں  تو محبت  مسائل میں گم ہو جاتی ہے 

زندگی چلتی رہتی ہے  ۔ زندگی میں  ہر موسم  آتا ہے سردی گرمی بہار خزاں مگر  ہر کسی کی برداشت الگ ہوتی ہے اور ہر جگہ موسم ایک سی شدت سے نہیں آتے کہیں سورج کی تپش اتنا نہیں جلاتی کہیں سردی جسم کو منجمد کر دیتی ہے کہیں بہار زمین کی گود پھولوں سے بھر دیتی ہے کہیں بہار میں زمین دو بوند پانی کو ترستی رھتی ہے کہیں خزاں میں  ویرانی چھا  جاتی ہے کہیں  خزاں بھی رنگوں سے بھری رھتی ہے     

Sunday, February 22, 2015

کچھ میری پسندیدہ

دنیا بھر میں نئ سے نئ ایجادات ھو رھی ہیں - جنھیں دیکھ کر حیرت ذدہ رہ جاتے ہیں ۔ کچھ  تو مجھے بہت اچھی لگی ۔
میری سب سے پسندیدہ ونگ سوٹ ہے - بچپن سے ایک خواب تھا کاش میں پرندوں کی طرح  اڑ سکتی - ونگ سوٹ بنانے والے کا بھی شاید یہی خواب ھو ۔ میں نے صرف خواب  دیکھا تھا ۔ مگر کسی نے اسے حقیقت بنا دیا ۔
ونگ سوٹ آٹھ سو سے دو ھزار  یورو تک میں مل جاتا ہے وڈیو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کتنے مزے کی چیز ہے - ونگ سوٹ آٹھ سو سے دو ھزار  یورو تک میں مل جاتا ہے وڈیو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کتنے مزے کی چیز ہے - ہاں اس کے ساتھ پیرا شوٹ بھی چاھئیے جو  دو سے تین ہزار یورو کا مل جاتا ہے


ماحولیاتی آلودگی دنیا بھر کا مسلہ ہے زرائے آمد و رفت سے زندگی میں سہولت بھی اور سب کی ضرورت بھی ۔ یورپ میں اکثریت کے پاس ذاتی کار ہے ۔ عرصہ سے کوشش کی جا رھی ہے شہر یا کم فاصلے کی آمد و رفت کے لیے ایسی چیزیں بنائ جائیں جو کم پٹرول خرچ کریں اور کم آلودگی کا باعث ہوں رولر اسکوٹر سٹی بائیک کے مختلف نئے اسٹائل ھر سال سامنے آتے ہیں ۔ سب سے مزے کا مجھے ائر ویل یا سٹی ویل لگا ۔ چین اور جاپان سے شروع ھوا اب یورپ میں بھی کئ فرمیں بنا رھی ہیں چھ سو سے اٹھارہ سو یورو تک کا مل جاتا ہے بیٹری  کی  طاقت  رفتار اور وزن قیمت کے حساب سے مختلف  ہے  ۔ 

سب سے حیرت انگیز چیز تھری ڈی پرنٹر ہے اس سے ایک معمولی سے پیچ سے گاڑی اور مکان تک بنانے کے تجربات ھو 
رھے ہیں - جس حساب سے ٹیکنالوجی ترقی کر رھی ہے آئندہ آنے والے پندرہ  بیس برس میں آج کا زمانہ پس ِ ماندہ لگے ۔ جیسے آج سے پچیس تیس برس پہلے کے لوگ اگر زندہ ھو جائیں تو بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو انھیں حیرت ذدہ کر دیں گی 



Sunday, February 1, 2015

غیرت

وہ لوگ دادی اماں کی وہیل چیئر  دھکیلتے  ھوئے جلدی جلدی قدم اٹھاتے  ھوئے جا رھے تھے جیسے کوئ ایمر جنسی ھوں ۔ چئیر پہ بیٹھا وجود چادر میں  لپٹا  ھوا تھا  ۔ دونوں نے مل کر اسے کار میں بیٹھایا اور وہیل  چئیر گاڑی میں رکھ دی ۔ گاڑی
تیزی سے سڑک پہ بھاگنے لگی
------------------------
پولیس کو کسی نے اطلاع دی شہر کے قریب جنگل میں  پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ کے قریب جھاڑیوں میں کسی کی لاش پڑی ہے ۔ پولیس نے چاروں جانب سے علاقے کو گھیر لیا ۔ کاروائ شروع ھوئ ۔ تلاش کرنے پہ ایک پرس ملا ۔ جس سے اس کا نام جاننے میں آسانی ھوئ ۔ پانچ کیلومیٹر کے فاصلے   پہ ایک چھوٹی سی نو آبادی کا ایڈریس تھا  - پولیس آفیسر ہیڈ کواٹر پہ رپورٹ کرنے لگا ۔ انھیں اب اس ایڈریس پہ جاتا تھا 
---------------------------------------
عارف صاحب  اور ان کی اہلیہ دم  بخود کھڑے تھے ان کے سامنے ان کی بیٹی  تھی انھیں اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرھا تھا  جو انھوں نے سنا -کیا وہ  واقعی   ان کی بیٹی نے کہا ہے ۔ ان کی معصوم بیٹی جس نے انیس برس  ان کی ہر  بات مانی  کبھی کسی فیصلے سے اختلاف نہیں کیا   کبھی کسی فیصلے پہ سوال جواب نہیں کیا  آج وہ ان کے فیصلے کے خلاف تن کر کھڑی  تھی ۔ اس میں اتنا بدلاؤ کب آیا اور وہ جان نہیں پائے ۔ عارف  صاحب  نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جیسے نظروں ہی نظروں میں کہا  دیکھا اپنی تربیت ۔۔۔ انیس برس تک باپ کی تربیت تھی  آج ان کی ہو گئ  ۔۔۔۔۔۔

وہ آن لائن ھوئ تو ایک لڑکے کی فرینڈ شپ ریکوئسٹ  تھی ۔ اس نے  اسے ایڈ کر لیا ۔ کچھ دن کے بعد ہا ئے ھیلو ھوئ  پھر بات ختم  - پھر ایک دن ایک فورم پہ مذھب  کے بارے میں بحث ھوئ  اس کے بعد  ان کی مختلف موضوعات پہ بات ھونے لگی  ۔ اور آہستہ آہستہ دوستی ھونے لگی دوستی محبت میں بدلنے لگی  وہ  قریب کے  شہر کا رھنے والا تھا ا کچھ ملاقاتیں ھوئیں   انھیں لگا  وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں ۔ گھر میں شادی کی بات چل  رھی تھی  ۔ اگر شادی کرنی ہے تو کسی اور سے کیوں  ۔ دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے دونوں   نے فیصلہ کیا  وہ اپنے گھر والوں سے بات کریں گے  انھیں امید تھی ان کے گھر والوں کو ان کے اس فیصلے پہ کوئ اعتراض نہیں ھوگا  ۔ رباب بہت پیاری  تھی وقاص اچھی شکل و صورت  کا مالک تھا  اس کا کورس مکمل ھوتے ہی جاب ملے کا  امکان تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رباب نےجب  اپنے گھر والوں کو وقاص کے متعلق بتایا  تو ان کے ری ایکشن  اس کی توقع کے خلاف تھا ۔ وہ نہیں جانتی تھی  اس کے  والد  اس کے رشتے کی بات  پاکستان اس کی پھپھو کر گھر کر چکے ۔ اس کا کزن اس کے لیے   اجنبی  تھا پاکستان  گئے کافی برس ھو گئے تھے  وہ اس کے بارے میں  نہیں جانتی تھی ۔ اس کا خیال تھا  وہ اپنی ماں کو اپنی بات با آسانی سمجھا سکتی ہے ۔  باپ  سے بات کرنا تھوڑا مشکل تھا  - مگر وہ پر امید تھی 
-------------------------
وقاص  اپنے گھر والوں سے ملوانے لے گیا  سب سے مل کر اسے بہت خوشی ھوئ سب اس کے بارے میں جانتے تھے  وقاص کے بہن بھائ اس کے امیا بو   بہت خوش تھے ان کے بیٹے نے ایک پاکستانی لڑکی کو پسند کیا  ورنہ  انھیں ڈھرکا لگا رھتا تھا کہیں وہ کسی کالی گوری کو پکڑ کر نہ لے آئے   ۔ انھیں رباب بہت پسند آئ تھی سکارف میں لپٹی ھوئ معصوم سی  گڑیا جیسی لڑکی 
--------------------------------------------
عارف صاحب  کوئ بات کرنے اور سننے کو تیار نہیں تھے  ۔ ان کی اہلیہ  صدمے کی حالت میں تھی لوگوں سے کیا کہیں گی  ان کی بیٹی نے لڑکا خود پسند کیا ۔ وہ لوگوں کو ھزار باتیں کرتی تھیں  اپنی بیٹی کی معصومیت اور فرمابرادری کی  ہر کسی کے سامنے ذکر کرتی تھی  شکر ہے ان کی بیٹی  یہاں پہ رھنے والے اور پاکستانی لڑکیوں جیسی نہیں ہے   وہ اسکارف لیتی  ہے  ۔  بہت فرمابردار بیٹی ہے -انھیں اب اس بات کی فکر تھی  لوگ کیا کہیں گے  ۔ ان کی بیٹی کیا کہہ  رھی تھی  اور کیا چاہ رھی تھی  اس کی طرف ان کا دھیان نہیں جا رھا تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص کے گھر والے پورے یقین کے ساتھ آئے ان کے بیٹے میں کوئ کمی نہیں  رباب کے گھر والے انکار نہیں  کریں گے    مگر عارف صاحب کا  سرد رویہ انھیں مایوس کر رھا تھا  وہ کوئ بات سننے  اور سمجھنے پہ تیار نہیں تھے   وہ لوگ خاندان میں شادی کرتے ہیں   اور فیصلہ ماں باپ کرتے ہیں اور فیصلہ وہ کر چکے ہیں   بیکار میں بحث کرنے کا کوئ جواز نہیں بنتا   رباب کا رشتہ طے ہو چکا ہے 
-------------------------------------------------
وقاص اور رباب نے فیصلہ کیا وہ کورٹ میرج کر لیتے ہیں  پھر  اس کے والدین کے پاس  انکار کی کوئ گنجائش باقی نہیں‌ رھے گی   - باقائدہ رخصتی  روائیتی  انداز میں اس  کے  والدین  کریں گے   - اسے یقین تھا  جلد ہی اسے پاکستان لے جا کر اس کی شادی کر دی جائے گی  اور وہ      وہاں شادی کرنا نہیں چاہتی تھی  ۔ انھیں اپنا فیصلہ مناسب لگا 
----------------------------------------------------------
گھر میں اس کے  ماموں ممانی آئے تھے اسے بہت خوشی ھوئ   اس کی اپنے ماموں سے کافی دوستی تھی  - ھنسی مذاق کرتے ھوئے  بات اس کی شادی کی چل پڑی  - ابو کہنے لگے  بس اگلی چھٹیوں میں وہ پاکستان جا رھے ہیں  رباب کی شادی  کر کے آئیں گے  - اس نے انکار کر دیا وہ پاکستان نہیں جائے گی  نہ وہ  وہاں شادی کرنا چاہتی ہے  
تم اتنی خود سر ھو گی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا 
زندگی میں نے گزارنی ھے کیا  میری رائے کی کوئ اہمیت نہیں 
تم ابھی بچی ہو  کیا ہم تمہارا برا چاہیں گے 
مگر شادی کے لیے ایک دوسرے کو جاننا چاہیے   محبت ھونی چائیے 
جب ھماری شادی ھوئ  ہم بھی ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانتے تھے  ۔   کیا ہے اتنے عرصے سے  ایک ساتھ رہ رہے ہیں  کیا ہم میں محبت نہیں 
پہلے سب کی ایسے شادی ھوتی تھی  اب وقت بدل گیا ہے 
وقت نہیں بدلا  تم بدل گئ ہو اپنے باپ سے زبان چلا رہی ہو  - کوئ لحاظ نہیں تمہیں 
میں زبان نہیں چلا رہی میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں 
گستاخ ۔ انھوں  نے  تھپڑ رسد کیا  ۔۔۔۔ کیا تم مجھے سمجھاؤ گی اپنے باپ کو  ۔ ہم بے عقل ہیں  ہمیں  کوئ سمجھ نہیں 
میں نے آپ کو بے عقل نہیں کہا 
بس بہت ہو گیا  ۔ ہوگا وہی جو میں کہہ رھا ہوں  
میں یہ شادی نہیں  کروں گی
شادی  وہیں  ھوگی جہاں ہم کہہ رھے ہیں ۔  اس  کے لیے ہمیں زبردستی  کرنی پڑی تو ہم زبردستی بھی کریں گے 
اگر آپ  زبردستی کریں گے تو ہم کورٹ میرج کرلیں گے
تھپڑ گھونسے کی بارش ھونے لگی  ان کی برداشت ختم ھو چکی تھی 
وہ کمزور کی لڑکی اپنے آپ کو بچانے کی نا کام کوشش کر رہی تھی 
اس کی امی اسے بد تمیز  اور گستاخ کہہ رھی تھی   اگر وہ فرمابردار ھوتی تو ماں باپ کی بات مانتی ۔ وہ کتنے بد قسمت ہیں جو ایسی بیٹی ملی 
عارف صاحب پہ جنون سوار ھو رھا تھا  ۔ اسکی گردن پہ ان کی گرفت سخت ہوتی جا رھی تھی 
-----------------------------------------------------------------

ڈور بیل ھوئ سامنے پولیس آفیسر کھڑا تھا ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی  رپورٹ درج کروائ تھی وہ کل رات سے لاپتہ تھی 
پولیس نے وارنٹ گرفتاری نکال کر سامنے کر دئیے ۔ وہ انھیں گرفتار کرنے آئے تھے 
---------------------------------------
پولیس کو یہ کیس حل کرنے میں کوئ دشواری نہیں ھوئ  ۔ رباب کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے  کے بعد سب سے پہلے انھوں پہ  ان کی رہائش گاہ کے گرد  سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی ۔ وہیل چئیر پہ  شام کو چادر میں لپٹی ھوئ دادی ماں نہیں     رباب تھی  ۔ جس کی لاش جنگل  میں پیدل اور سائیکل کے راستے  کی سائڈ پہ پھینکی  گئ تھی صبح  ھوتے ھی  گزرنے والی کی نظر پڑ گئ تھی 
-----------------------------------------------------------
ملک بھر کے اخبارات  کی ھیڈ لائنز یہ تھی
اسے مرنا ھی تھا ۔ اس نے محبت کی تھی
ماں باپ نے اپنی بیٹی کو خود مار دیا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاھتی تھی 
باپ نے غیرت میں آکر بیٹی کو مار دیا  - یہ غیرت کیا ھے ۔ جس کی وجہ سے2015 میں  79 لڑکیوں  مار دیا گیا 
حکومت ایسے  قتل کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کر سکتی  ۔ یہ کیس تب سامنے آتے ہیں  جب قتل ھو چکا ھوتا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارف صاحب کی غیرت   کیا تھی ۔ ضد ؟انا ؟  اپنی بیٹی   کا حکم عدولی   کرنا ؟ 

میرا رب

پارلر سے نکلتے ھوئے حسبِ عادت میں نے خدا حافظ کہا ۔۔ میرے ساتھ جو  میری دوست تھی اس نے میرا بازو زور سے دبایا - میں نے ا س کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے کے عجیب سے تاثرات تھے مجھے حیرت ھوئ میں نے ایسا کیا کہا یا کیا کر دیا جو وہ مجھے ایسے دیکھ رھی ھے 
وہ سرگوشی میں بولی تم نے اسے خدا حافظ کہا وہ تو ھندو ھے 
اس میں اتنی بڑی بات کیا ھے اللہ ھی حفاظت کرنے والا ھے 
مگر وہ تو بھگوان کو مانتے ھیں 
اگر اللہ کو نہیں مانتے تو کیا ۔ 
اس کی آواز رونے والی ھو گئ اللہ حافظ کا مطلب ھے اللہ حفاظت کرے ۔ جب وہ اللہ کو نہیں مانتی تو ھمارا اللہ کیوں حفاظت کرے 
میرا بے اختیار ہنسی آگئ - پہلے بھی کسی سے اسی بات پہ بحث ھو چکی تھی 
گویا ہم اللہ کو مانتے ہیں ہماری حفاظت کی ذمہ داری ہمارے اللہ پہ فرض ھے ۔۔ ہمارا اللہ کیوں اوو ٹائم لگائے اور ان لوگوں کی
حفاظت کرے جو اسے مانتے نہیں ہیں
 مطلب   کیا ہے  اس کا ؟؟؟
کیا واقعے  کوئ بھگوان ھے ؟؟ جس میں اتنی طاقت ہے وہ پیدا کرے حفاظت کرے لوگوں کی دعائیں سنے ؟؟
جب کوئ بیمار ھو تو بیماری میں شفاء دے ۔زندگی دے موت دے - کیا کوئ بھگوان ہے جو لوگوں کی دعائیں سن سکتا ھے ؟؟
نہیں ------ بالکل بھی نہیں 
کوئ اللہ کہے کوئ بھگوان ۔ کوئ گاڈ ۔۔ کوئ گرو کوئ سائیں    - رب کہو یا مولا 
پیدا کرنے والا ایک ھے وہ زندگی دیتا ھے موت دیتا ھے ۔ محنت کا پھل دیتا ھے وہ کوئ بھی ھو کوئ مسلمان ھو ھندو عیسائ یا دھریا 
ہے تو سبھی اس کے بندے ۔ ہاں تقویٰ کا فرق ہے ۔ 
دنیا میں اللہ کی پیدا کی ھوئ مخلوق چار سو نظر آتی ہے ۔ کوئ بھی بے مقصد نہیں ۔اللہ کسی کو بے مقصد پیدا نہیں کرتا  اس کی حکمت  ہم نہیں جانتے ۔ آنے والے وقت میں کیا ھوگا آج سے پچاس برس بعد  آج سے پانچ سو برس بعد مگر اللہ سب جانتا ھے ۔
ھزاروں برس پہلے جب ھندوؤں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجنا شروع کیا مگر اللہ نے انھیں تباہ و برباد نہیں کیا اس کے لیے تو کچھ بھی مشکل  نہیں - صرف ایک کن کہنے کی دیر ھے پھر سب کچھ ھونے لگتا ھے - اللہ جانتا تھا انھی بت پرستوں میں سے اللہ کے ماننے والے نیک لوگ پیدا ھوں گے ۔ ان ھندو عیسائیوں یا  دھریا لوگوں کی نسل سے کتنے نیک لوگ پیدا ھوں گے اللہ علم رکھتا ھے  -
ہم جلدی چاھتے ہیں ھر کام ھر فیصلہ میں  ۔ اگر اللہ نہیں کرتا تو ہم ھر کام ہر فیصلہ  ھر سزا خود دینا چاھتے ہیں 
اگر اللہ ہمارے ہر عمل کی سزا فوراً اور سخت دے تو شاید ہم جی   نہ پائیں  اور سہہ نہ پائیں -  جب ھماری اپنی باری آتی ھے تو ھم مان لیتے ہیں اللہ بہت رحمان  ھے ستر ماؤں سے زیادہ  محبت کرنے والا  ۔ کیا اللہ صرف ھم سے  ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ھے اور لوگوں سے نہیں ؟؟؟  ماں کے تو دس بچے بھی ھوں وہ سب سے محبت کرتی ہے چاھے کوئ معذور ہو ۔ چور ہو یا ڈاکو ۔ اپنے آوارہ بیٹے کے لیے زیادہ تڑپتی ہے آخری سانس تک  دعا کرتی‌ہے  اللہ کے حضور روتی  کہ اس کے بچے کو ھدایت دے ، بد دعا نہیں کرتی  مارتی نہیں ۔ اگر اس کا آوارہ بچہ سدھر جاتا ہے تو  ہر زیادتی کو بھول  کر سینے سے لگا لگتی ہے ۔ اللہ  رب العالمین ہے  سب کا مالک اور خالق ہے 
میں  جانتی ہوں میرا رب سب کا پیدا کرنے والا ھے رزق دینے والا ھے حفاظت کرنے والا ہے ۔ جب کوئ دنیا پانے کے لیے محنت کرتا ہے تو وہ اسے دنیا عطا کرتا ہے جب کوئ آخرت کے لیے محنت کرتے ہے تو اسے اجر دیتا ھے  ۔ 
میرے اللہ حافظ نہ کہنے سے انھیں نہ ھی تباہ کرے گا  ۔ میرے سلام نہ کرنے سے ان کی سلامتی کو کوئ خطرہ نہیں ھوگا - 
میں اتنا ضرور کرتی  ہوں  میں سب کو بتاتی ہوں میرا ایمان کیا ہے میرا اللہ پہ کیسا یقین  ہے  ۔ میں کسی سے نفرت نہیں کرتی  
یہ تصور  کرنا بھی شرک سمجھتی ہوں  ھندوؤں کا خالق بھگوان ہے ان کا مالک ان کا رازق  ان کی حفاظت کرنے والا  کوئ   بھگوان یا گاڈ ہے 
میں اسے رب کہوں مولا  اللہ یا خدا  وہ جانتا ہے میں اس سے  بات کر رھی  ہوں کسی اور کو نہیں پکار رھی  ۔ وہ دل کی آواز  بھی سن لیتا ہے  جب کوئ بات سوچتی ہوں  وہ پھر بھی جان لیتا ہے  وہ میرا   رب ہے


Wednesday, January 28, 2015

محبت یا پیسہ

فیس بک پہ اکثر دیکھا ھے ایک سوال پوچھا جاتا ھے ۔ آپ کا انتخاب کیا ھے ۔۔ محبت یا پیسہ 
تو اکثریت کا جواب ھوتا ھے محبت -------
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو  محبت کے بنا چار دن  زندہ رہ سکتے ھیں مگر پیسے کے بنا نہیں 
محبت کے بنا زندگی بے رنگ ھوتی ھے 
اور پیسے کے بنا زندگی ختم ھوتے دیکھا ھے 
اپنے بچوں کا سودا کرتے دیکھا ھے 
اپنے اعضاء بیچتے دیکھا ھے 
بھائ بھائ کا دشمن بن سکتا ھے 
ماں باپ قتل کر دیا جاتا ھے 
میاں بیوی کی محبت پیسے کی کمی سے دن رات کی لڑائ جھگڑے میں بدل جاتی ھے 
پیسہ ھر وقت کی ضرورت رہا ھے 
زن زر اور زمین کی اہمیت ھر علاقہ ۔ ہر زمانہ میں رہا ہے 
محبت جو کام نہیں کروا سکتی وہ پیسہ کروا دیتا ھے 
دین ایمان کا سودا ضمیر کا سودا 
اگر پیٹ بھر کر کھانے کو ہو تو 
پہلا انتخاب محبت ھو گی 
بھوک سے مرتے ھوئے انسان سے پوچھیئے 
ایک باپ کے سامنے اس کا جوان بیٹا  اس لیے مر رھا ھے کہ اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں
اس سے پوچھیں  محبت چائیے تو
وہ آپ کا پاگل سمجھے گا ۔
  اگر آپ کو اس سے محبت ھے تو آپ کا فرض ھے اس کی ضرورت  کو پورا کریں 
اسے مشکل  سے نکلنے کے لیے مدد کریں 
سننےاور پڑھنے میں کتابی  فلمی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں ہمارا انتخاب محبت ہے ہمیں دنیا کا لالچ نہیں 
مگر دنیا کے ساتھ محبت کے 
محبت کے ساتھ دنیا ھے 
بنا محبت دنیا نہیں اور دنیا کے بنا محبت نہیں 

------------------------------------
ایک چھوٹی سی خبر پڑھی تھی ۔ ایک عورت نے خودکشی کر کی ڈھائ برس کے بچے کے ساتھ
ہاں  ھمارے لیے چھوٹی سی خبر  ۔ بڑی بڑی باتیں ھوتی رھتی ھیں 
مگر پھر بھی 
کبھی چھوٹی چھوٹی سی باتیں بہت اثر کرتی ہیں



چار لائن کی کہانی




ایک جنگل میں شیر نے سب جانوروں کو  کو پکارا 
جب سب چھوٹے بڑے  جانور اکٹھے ھو گئ  ۔ 
تو کہا ۔ میں جنگل کا بادشاہ ھو سب میرے ماتحت  ہیں  سبھی کو میرا حکم ماننا پرے گا 
ہاتھی نے سونڈھ میں اٹھا کر گھوما کی زمین میں پٹخ دیا 
شیر نے اٹھ کر کہا ۔تم کون ھو  - اگر میری بات سمجھ نہیں آئ تھی  تو کسی سے پوچھ لیتے 
ہاتھی نے کہا ۔ میں  جنگل کا چیف آف آرمی اسٹاف ہوں 

Saturday, January 24, 2015

سچ اور آئینہ

لوگ سچ سننا پسند نہیں کرتے اس کی ایک وجہ یہ بھی ھے ۔ سچ بے لباس ھوتا ھے برہنہ سامنے  آ کھڑا ھوتا ھے اپنے کوڑھ ذدہ وجود کے ساتھ اپنے تلخ چہرے کے ساتھ جو ھم برداشت نہیں کر پاتے 





جھوٹ ھزار پردوں میں میں چھپا رہتا ھے ۔یا بہت ھی   حسین اور  دلکش لباس ملبوس کیے ھوتا ھے ۔ جو ھمیں دیکھنے سننے میں اچھا لگتا ھے ۔ ھم خوبصورت  پردوں میں چھپا مکروہ چہرہ دیکھ نہیں پاتے ۔۔۔ جب جھوٹ کے پردے ھٹتے ھیں ۔۔ ھمارے سامنے سچ بن کر آتا ھے تو ۔۔ ھمیں برا لگتا ھےھمارے لیے نا قابلِ برداشت ھوتا ھے  ھم  اس سے  نفرت کرنے لگتے  ھیں 








ھر انسان خود کو آئینے میں دیکھتا ھے ۔۔ خود کو سنوارتا ھے ۔۔ سجتا ھے ۔۔۔ اپنی خوبصورتی پر نظر رکھتا ھے ۔۔ اور خوش ھوتا ھے 
مگر جب کوئ ھمیں آئینہ دیکھاتا ھے ۔۔تو ھمیں برا لگتا ھے  اس لیے نہیں کہ آئینہ بد صورت ھوتا ھے   اس میں نظر آنے والا    عکس بھیانک نظر آتا ھے تو ھم چیخنے چلانے لگتے ھیں ۔۔۔ قصور آئینہ دیکھانے والے کا نہیں ھوتا ۔۔۔ ھمارے چہرے کا ھوتا ھے ۔۔۔کچھ لوگ  جھوٹ سننا پسند کرتے ھیں ۔۔۔ اپنے وجود سے وابستہ کوئ بھی کمزوری  نہ دیکھتے ھیں نہ دیکھنا پسند کرتے ھیں ۔وہ یہ نہیں سوچتے ۔ اس کمزوری اس خامی کو دور کر دیں  تو پھرآئینے میں   عکس  خوبصورت    دیکھے  گا   ۔۔۔ مگر شرط یہ ھے پہلے آپ سچ کا سامنا کریں ۔ اور حقیقت کو مانیں --












Monday, January 19, 2015

ادھر اُدھر سے

ادھر اُدھر سے 

قوم  جس حال میں اس وقت ھے اسے  تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ھے ۔ لوگ کہہ رھے ھیں ۔ آزمائے ھوئے کو نہیں آزمانا چاھئیے ۔ ھم نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا - ھمارے پاس تجربہ  ھے تجربہ کار لوگوں کی ایک ٹیم ھے - ھمیں مسائل کا پتا ھے ۔ ھمیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا ۔ ھم فوری کام شروع کر سکتے نئے لوگوں کو کیا  پتا -کس بات کا تجربہ ھے ان کے پاس

میاں صاحب  آپ کی تقریر   یاد کر کے شکر ادا کر رھی ھوں ناتجربہ کار لوگ ملک کا پتا نہیں کیا حال کرتے ۔ جب آپ کی تجربہ کار ٹیم نے یہ حال کیا ھے  - آپ کا تجربہ  ھر طرف بول رھا ھے 
----------------------------------------
خادمِ اعلیٰ صاحب آپ نے فرمایا تھا عوام کے لیے دن رات ایک کر دیں گے 
آپ کا تو پتا نہیں  عوام کے دن رات ایک ھو چکے ھیں 
دن کو بھی پٹرول کے لیے لائن میں اور رات کو بھی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خاں  نے نعرہ لگایا  نیا پاکستان  کا 
مگر میاں  صاحب نے پراناپاکستان بنا دیا 
جب پاکستان میں نہ گیس تھی نہ بجلی ۔ سڑکوں پہ سائیکل چلتے نظر آتے تھے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان نے ایک ارب  درخت لگانے کا پروگرام بنایا ھے 
یہ پی پی پی  کو پروگرام بنانا چاھیئے تھا ۔ اس سے ان کا روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا ھو جاتا 
عوام درختوں  کے پتے  کھاتے ۔ اوڑھتے ۔ اور اسی پہ بسیرا کرتے اور ٹھنڈی  ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتے 

---------------------------------------
عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا 
اور عوام نے دیکھا 
تبدیلی آئ ھے 
اور عوام بھی اپنی زندگی میں  ویسی ھی تبدیلی چاھتے ھیں جیسی عمران خان کی زندگی میں آئ 
پنشن  لینے  کی عمر کے لوگ بھی خود کو جوان سمجھنے لگے ھیں 

------------------------------------

سنا ھے مولانا فضل الرحمان  غصہ کرتے تھے جب انھیں مولانا ڈیزل کہا جاتا تھا 
اب سنا ھے خوشی کا اظہار کر رھے ھیں ۔۔ دیکھا بنا ڈیزل زندگی کا  سواد 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رانا ثناء اللہ  کسی کام کے لیے نہیں اپنے بیانات کی وجہ سے پہنچانے جاتے ھیں ۔ لوگ یہ نہیں جانتے ان کے پاس کیا عہدہ  ھے اور وہ کیا کام کرتے ھیں  ۔ بس یہ جانتے ھیں انھیں کسی پہ بھی چھوڑ دیا  جائے تو پھر خوب چھوڑتے ھیں 
فرما رھے ھیں عمران خان اسی سال پاگل خانے جائے گا 

رانا صاحب  حالات یہی رھے تو  پوری قوم کو جانا پڑے گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میڈیا پہ خبر گرم ھے ۔ محترم آصف علی زرداری  نے بھی شادی خانہ آبادی کر لی ھے ۔ خیر سے بلاول کا ایک بھائ بھی ھے جس کا نام سجاول ھے 
اگر یہ سچ ھے تو 
یقیناً  سجاول زرداری ھوگا  ۔۔ یا کسی طریقے  سے اسے بھی بھٹو بنایا جائے گا 

-----------------------------------------------

عمران خان صرف باتیں بناتا ھے 
سچ ھے عمران نے کہا وہ پاکستان بند کر دے گا 
اور
میاں صاحب نے کچھ نہیں کہا
اور کر دیا 
اسے کہتے   شیر 

---------------------------------------------------

میاں صاحب عمرہ کرنے گئے تھے
قوم کے لیے بہت سی دعائیں مانگی
کاش  تھوڑی سا پٹرول بھی مانگ لیتے 
کیا پتا مانگا ھی ھو 
ھم کونسا جانتے ھیں 
یہ بھی ھو سکتا ھے دعاقبول  نہیں ھوئ 
ایک اور عمرہ کر کے دیکھ لیں 
عوام کے پیسے سے عوام کے لیے دعا  کر دیں 
اللہ بھلا کرے گا 

---------------------------------

ایک ھی صف میں کھڑے ھو گئے محمود و ایاز 

ایک ھی لائن میں کھڑے ھو گئے  محمود ایاز  ---- موٹر سائیکل رکشے  اور گاڑی والا ----
واہ   -----------  امیر غریب کا فرق ھی ختم ھو گیا  ------- 
کون کہتا ھے پاکستانی عوام میں صبر نہیں 
صبح سے شام تک  پٹرول پمپ پہ کھڑے ھیں  اور صبر کی انتہا کیا ھو گی 
وہ لوگ کہاں ھیں جو کہتے تھے ھمیں لائن بنانا نہیں آتی 
اب دیکھیں  میلوں لمبی لائن
سچ کہتے ھیں وقت سب سکھا دیا ھے 
مشکلات  انسان  کو کندن بنا دیتی ھیں 
قوم کندن بن رھی ھے میاں صاحب شکریہ 

----------------------------------------
کسی سے پوچھا 
آبِ حیات چاھئیے یا  پٹرول
جواب -- پٹرول 
بجلی نہ ھو نہ پانی  نہ پٹرول ۔ عمرِ خضر  لے کر کیا کرنا 
--------------------------------------
شارٹ سٹوری 
میرے پاس پیسہ ھے 
کار ھے 
کوٹھی ھے اور تمہارے پاس
تمہارے پاس کیا ھے 
۔
-
-
-
میرے پاس پٹرول ھے ۔
ہاہاہا

----------------------

Thursday, January 8, 2015

امن اور چنگاڑی

بوڑھی جرمن عورت کانپ رھی تھی شاید وہ سب مناظر اس کی نظروں کے سامنے آگئے تھے - برسوں پھیلی جنگ  اجڑے دیار - بھوک سے تڑپتے بچے سنسان گلیاں  بات کرتے کرتے وہ رونے لگی ھم جنگ نہیں چاھتے وہ بہت تکلیف دہ ھوتی ھے کوئ تصور نہیں کر سکتا کوئ بیاں نہیں کر سکتا کوئ محسوس نہیں کر سکتا اس کرب کو اس تکلیف کو - وہ روتے 
ھوئے کہہ رھی تھی 


آج کے نوجوان کیا جانیں  جنگ کیا ھوتی ھے جو امن کے زمانے میں پیدا ھوئے جنھیں کچرے کے ڈھیر سے ایک ایک 
روٹی کے ٹکڑے کو چننا نہیں پڑا  جنھیں صاف پانی کے لیے ترسنا نہیں پڑا - سڑکوں ھفتوں پڑھی لاشیں نہیں دیکھنی پڑی - ھم جنگ نہیں چاھتے ھم امن چاھتے ھیں  بہت مشکل سے ھم اس مقام تک پہنچیں ھیں  - دن رات کام کیا ھفتے کے سات دن سولہ سولہ گھنٹے  - 




یہ بات آج کل نوجوان کیا جانیں جو آٹھ گھنٹے کام کرتے ھیں محنت نہیں کرتے سگریٹ پینے کے لیے بار باروقفہ چاہتے ھیں ماں باپ کی کمائ پہ عیاشی کرتے ھیں -ھم نے  اپنے بچوں کو  ھر آسائیش  دی کیونکہ ھم خود ترس ترس کے زندگی گزار چکے تھے اپنے ملک کو بنانے کے جنون میں اپنی زندگی بہتر بنانے کے جنون میں ھم بہت سی باتیں اپنے بچوں کو سیکھانا بھول گئے  - انسانیت اور امن کا سبق  - ھم یہ سیکھنا بھول گئے امن سے بڑھ کر کوئ چیز نہیں  - 
اسائلم کے لیے  ھزاروں لوگ  جرمنی آتے ھیں  انھیں پناہ دی جاتی ھے  غیر  ملکیوں نے  جرمنی کی تعمیر میں حصہ  لیا بہت کام کیا -  انھیں جرمن کے برابر حقوق دئیے گئے - مشرقی جرمنی  لمبا عرصہ جرمنی سے الگ رھا  - بہت ظلم برداشت کیے   غیر ملکیوں کے لیے ان کے دلوں میں نفرتیں ھیں   - جو مختلف  واقعات سے سامنے آتی رھتی ھے - ملک بھر میں سکون تھا  ایک دراڑ  نائن الیون کے بعد  پڑی  جو مٹی نہیں -  آہستہ آہستہ  غیر محسوس طریقے سے پھیلتی رھی  - سلو 
پائیزن  کی طرح 





ایک مخصوص  سوچ کا حامل  نازی  گروپ کے جلسے جلوس غیر ملکیوں کے خلاف  ھوتے تھے جسے پر امن جرمن ناپسند یدہ نظروں سے دیکھتے تھے  - آج غیر ملکیوں کے خلاف جلوسوں میں حاظرین کا تعداد پندرہ سے بیس ھزار تک پہنچ چکی ھے  جو قابلِ تشویش  ھے 
ان جلوس کے مقابلے پر ایک بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کے حق میں بھی جلوس نکل رھے ھیں  - مگر مخالفت میں نکلنے والے  جلوسوں کی حاضری بڑھتی جا رھی ھے  - ایسا یورپ کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے میں آرھا ھے  - ایک آلارم بج رھا ھے ۔ چند ایک  مسلمان ممالک کے علاوہ  باقی مسلم ممالک اندرونی مسائل کا شکار ہیں   یا ایک دوسرے کو ھی اپنی نفرت کا نشانہ بنا رھے ھیں ۔ اگر یورپ میں نفرت کی آگ پھیل گئ تو  بہت بڑے اور نا قابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا  جس کا ابھی اندازہ نہیں کر سکتے 

امن کی باتیں کرنی والی بوڑھی جرمن آج مر چکی ھے  ۔  اب سڑک پر  آج کا نوجوان کھڑا ھے جو نہیں جانتا ماضی کیا تھا کون کون سی مشکلات تھیں  ۔ غیر ملکیوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کون کون سے کام  کیے جرمنی ترقیوں کی منزل  طے کرتے کرتے یہاں تک کیسے پہنچا   - جرمن صرف جرمنوں کا ھے یہ نعرہ یہ سوچ ہٹلر کی تھی  جو آج پھر لوگوں کی زبان  پر  آرھی ھے ۔ اس سوچ نے پہلے بھی دوسروں کے ساتھ جرمنوں کو بھی تباہ کیا تھا - اب بھی صرف تباہی لائے گی -  تاریخ بار بار اپنے آپ کو دھراتی ھے - انسان وہی غلطیاں بار بار کرتے ھے  ۔ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا  - واقعی ھی انسان کم فہم   بھی  ھے اور ظالم بھی  -
آگ بجھانے کی کوشش کی جا رھی ھے ۔ مگر چنگاڑی بھڑک رھی ھے  - اسے ایندھن نہ ملے تو اچھا ھے